محترم محمد طفیل صاحب اور اُن کا خاندان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جولائی2012ء میں شاملِ اشاعت اپنے مضمون میں مکرم محمد اکرم خالد صاحب نے اپنے خاندان کا تعارف پیش کیا ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ہمارا گاؤں ’ننگل باغباں‘ بہشتی مقبرہ قادیان سے ملحق ہے۔ میرے والد مکرم محمد طفیل صاحب چار بھائی تھے اور نہایت سادہ مزاج لوگ تھے۔ ایک دن انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہمیں کوئی پیر ڈھونڈنا چاہئے۔ بڑے غور و خوض کے بعد فیصلہ ہوا کہ مولوی غلام احمد بڑا نیک آدمی ہے، سارا دن مسجد میں پڑا رہتا ہے لہٰذا اسے ہی اپنا پیر بنا لینا چاہئے۔ چنانچہ رواج کے مطابق چاروں بھائی تیار ہو کر ایک پگڑی، دیسی شکر کا تھال بھر کر اوپر چاندی کا ایک روپیہ رکھ کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارا یہ حقیر نذرانہ قبول فرمائیں اور ہمارے پیر بن جائیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ مجھے پیر بننے کا خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں ہوا لہٰذا مَیں یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس پر چاروں بھائی غصے میں واپس گاؤں لَوٹ آئے۔ چند سال کے بعد جب حضور علیہ السلام نے خداتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو افسوس کہ یہ سادہ لوگ اسی ناراضگی میں بیعت سے محروم رہے اور کہنے لگے کہ مرزا صاحب کو ہماری شکر پگڑی اور روپیہ اب یاد آنے لگا ہے۔ لیکن پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کرنے کی توفیق پائی۔
ان چار بھائیوں میں بڑے مکرم محمد یعقوب صاحب ننگلی تھے جو الفضل کے کاتب رہے۔ اُن کے بیٹے مکرم مولوی محمد صدیق صاحب ننگلی مبلغ سلسلہ سیرالیون رہے۔
دوسرے بھائی جلال الدین صاحب اپنی پارسائی کی وجہ سے مولوی کہلاتے تھے۔ بہت صفائی پسند اور نماز باجماعت کے سختی سے پابند تھے۔ مسحورکُن آواز میں اذان دیتے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ کئی دورہ جات میں بطور خدمتگار ساتھ جانے کا موقع ملتا رہا۔ اذان دینا آپ کے فرائض میں شامل تھا اور کارکنان کو ہدایت تھی کہ اذان کے وقت آپ کو کسی کام سے نہ بھیجا جائے۔ ایمانداری میں مشہور تھے اور لوگ امانتیں ان کے پاس رکھوایا کرتے تھے۔
تیسرے بھائی (مضمون نگار کے والد) مکرم محمد طفیل صاحب ننگلی دل و جان سے فدائی احمدی تھے۔ باوجود ناخواندہ ہونے کے بہت سے اشعار درثمین و کلام محمود سے زبانی یاد تھے۔ بہت مضبوط جسم کے مالک تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ٹانگیں دبانے کی سعادت بھی پائی۔ بہت قناعت پسند تھے اور نہایت تنگی کی حالت میں بھی قرض لینے کی بجائے ہمیشہ شاکر رہتے۔
سب سے چھوٹے بھائی مکرم محمد صادق صاحب ننگلی درویشِ قادیان تھے۔ 5نومبر 2011ء کو اُن کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے نمازہ جنازہ غائب پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ مکرم چوہدری محمد صادق صاحب ننگلی ابن مکرم وریام دین صاحب ننگلی ہمارے قادیان کے درویش تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب درویشی کی تحریک کی تو آپ ابھی چھوٹے تھے لیکن آپ نے اس تحریک پر بڑے اخلاص سے لبیک کہا اور آخر دَم تک پوری وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھایا۔ آپ مرکزی دفاتر میں خدمت بجا لاتے رہے۔ علاوہ ازیں قادیان میں جماعت کی بہت سی ایسی زمینیں جو غیر ہموار تھیں انہیں ہموار کرنے کی بھی توفیق پائی۔ آپ ایک ہمدرد ذہین اور مخلص کارکن تھے۔ آپ کو خدمت خلق کا بہت شوق تھا۔ دودھ سبزیاں، پھل اور اناج وغیرہ چونکہ گھر کا ہوتا تھا اس لئے آپ مختلف گھروں میں بلا معاوضہ کچھ نہ کچھ روزانہ بھجوایا کرتے تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان پر آنے والے مہمانوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور ان کے آرام اور کھانے پینے پر اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کرتے تھے۔ انتہائی ملنسار، غریب پرور، صابر شاکر اور صوم و صلوٰۃ کے پابند مخلص انسان تھے۔ اولاد کی بہترین رنگ میں تربیت فرمائی۔ موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں چار بیٹے ان کی یادگار ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد عارف صاحب جو افسر جلسہ سالانہ اور ناظر مال خرچ قادیان تھے جو گزشتہ سال وفات پاگئے تھے۔
مکرم محمد صادق صاحب کے بارہ میں حضورانور نے جو یہ فرمایا کہ ’آپ ایک ہمدرد ذہین اور مخلص کارکن تھے‘۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ قادیان میں ایک کارخانہ ’میک ورکس‘ کے نام سے تھا جس میں سمت معلوم کرنے کے لئے بحری جہازوں میں استعمال ہونے والے کمپاس تیار ہوتے تھے۔ کمپاس میں ایک پرزہ جیول (Jewl) لگتا تھا جو جرمنی سے بن کر آتا تھا۔ آپ نے کم عمری میں ہی یہ پرزہ خود تیار کرلیا جو جرمنی بھجوایا گیا اور ہر لحاظ سے فِٹ پایا گیا۔ جرمنی کے انجینئرز آپ کو ملنے قادیان آئے اور اس خوشی میں آپ کی اُجرت بھی دوگنی کردی گئی۔
آپ کے بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد عارف صاحب کی وفات پر حضور انور ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں ذکرخیر فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد عارف صاحب واقف زندگی خود بھی درویش تھے۔ 13جون 2010ء کو 53سال کی عمر میں ان کی وفات ہوگئی۔ 30سال تک مختلف جماعتی عہدوں پر احسن رنگ میں خدمت انجام دیتے رہے۔ 1995ء میں ناظر مال خرچ قادیان مقرر ہوئے اور تا وفات اسی عہدے پر فائز رہے۔ ا س کے علاوہ آٹھ سال تک ناظر تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمت بجا لاتے رہے۔ چھ سال تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت اور پھر نائب صدر مجلس انصار اللہ بھارت بھی رہے۔ 1993ء میں افسر جلسہ سالانہ قادیان مقرر ہوئے اور نہایت عمدگی سے یہ فریضہ انجام دیا۔ 2005ء میں جب مَیں قادیان گیا ہوں تو اس وقت بھی یہی افسر جلسہ سالانہ تھے اور بڑی ہمت اور محنت سے انہوں نے اس سارے نظام کو سنبھالا۔ کئی مرتبہ ان کو قائمقام ناظر اعلیٰ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی اور میاں صاحب کی وفات کے بعد نائب امیر مقامی بھی مقرر ہوئے۔ صدرانجمن احمدیہ کے علاوہ انجمن تحریک جدید، انجمن وقف جدید اور مجلس کارپرداز کے ممبر بھی تھے۔ صدر فنانس کمیٹی تھے۔ اسی طرح نور ہسپتال کی کمیٹی کے صدر تھے۔ انہوں نے اردو میں M.A. کرنے کے بعد گرونانک یونیورسٹی سے Ph.D. کی ڈگری حاصل کی۔ تہجد اور نمازوں کے بڑے پابند، خلافت سے والہانہ محبت رکھنے والے، مخلص اور باوفا انسان تھے۔ اکثر سچی خوابیں آیا کرتی تھیں اور انہوں نے اپنی اہلیہ کو بتا دیا تھا کہ لگتا ہے میرا وقت قریب ہے۔ لمبا عرصہ ڈائیلیسز میں رہےاور بڑے صبر اور حوصلے سے بڑی لمبی بیماری انہوں نے کاٹی۔ آخر میں پھیپھڑوں میں انفیکشن ہوگیا۔ میں نے بھی ان کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے دیکھا۔ 1991ء میں میں نے بھی ان کے ساتھ جلسہ سالانہ پر عام کارکن کی حیثیت سے ڈیوٹی دی ہے۔ اس وقت بھی مَیں دیکھتا تھا۔ بعد میں اپنے وقت میں بھی میں نے دیکھا کہ خلافت کے لئے ان کی آنکھوں سے بھی ایک خاص محبت اور پیار ٹپکتا تھا۔ بڑی محنت سے ڈیوٹی دیتے تھے اور افسران کے سامنے ہمیشہ مؤدب رہے اور کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتے رہے بلکہ بعض دفعہ 1991ء میں ڈیوٹی کے دوران مجھے احساس ہوتا تھا کہ افسر بعض دفعہ ان سے زیادتی کر جاتے ہیں لیکن کبھی ان کے ماتھے پر بل نہیں آیا۔ مسکراتے ہوئے کامل اطاعت کے ساتھ افسر کا حکم مانتے تھے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ قادیان سے ہجرت کے وقت مکرم محمدطفیل صاحب ننگلی کے تینوں بھائی اور بھتیجا حفاظتِ مرکز کے لئے قادیان میں ٹھہر گئے اور وہ اکیلے اُن سب کے اہل و عیال کو ساتھ لے کر بے یارومددگار لاہور آگئے۔ وہاں سے آپ نے ایک خط قادیان میں اپنے عزیزوں کو ارسال کیا جو تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے۔ آپ نے لکھا کہ ’’آپ کا نوازش نامہ ہمارے لئے باعث صد مسرت ہوا اور ہمارے مغموم دلوں کو آپ کے اس نوید جانفزانے کہ ہم دیار محبوب میں قادیان کی حفاظت کے لئے درویشانہ زندگی بسر کریں گے خوشی سے بدل دیا۔ بیشک ہم اس وقت نہایت کسمپرسی کی حالت میں بے یار و مددگار ہیں، بچے بیمار ہیں، نہ زاد راہ ہے۔ متوکل علی اللہ اب لاہور سے کسی جہت نکل جائیں گئے اور صمیم قلب سے یہ دعا کرتے رہیں گے کہ آپ جو عظیم الشان مقصد رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو نوازے اور آپ کے عزم و استقلال، پایۂ ثبات کو ثابت قدم رکھے اور توقع رکھتے ہیں کہ ہر وہ گھڑی جس میں زندگی اور موت کا سوال ہو آپ صف اوّل میں کھڑے ہوں گے۔…‘‘
مکرم محمد طفیل صاحب کی شادی محترم منشی محمد عبداللہ صاحب کی بیٹی سے ہوئی جو پاکستان بننے سے پہلے ہی سندھ شفٹ ہوگئے تھے۔ آپ اپنے بھائی جلال الدین صاحب کے ہمراہ حضرت مصلح موعودؓ کے قافلے میں قادیان سے ناصرآباد سندھ گئے اور وہاں سے دونوں بھائی بارات لے کر محمود آباد سٹیٹ پہنچے اور دلہن لے کر ناصر آباد آگئے جہاں حضرت اُمّ طاہر نے چنبیلی کا ہار حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے ذریعہ بھجوایا۔ پھر قافلے کے ساتھ یہ نوبیاہتا جوڑا واپس قادیان پہنچا۔ راستے میں بھی حضرت اُمّ طاہر نے دلہن کا ایک ماں کی طرح بہت خیال رکھا۔
مکرم محمد طفیل صاحب پر آخری ایام میں مسجدمبارک میں ظہر کی نماز کے وقت دل کا شدید حملہ ہوا۔ ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ بار بار غشی کے دورے پڑتے تھے۔ ایک بار ہوش آیا تو آنکھوں میںآنسو دیکھ کر بیٹے نے پوچھا کہ کیا کوئی درد ہورہا ہے؟ فرمانے لگے کہ نہیں۔ پوچھا تو پھر آنسو کس بات کے؟ بڑے درد سے کہنے لگے کہ ’’میرے پلّے کچھ نہیں‘‘۔
بہرحال چند روز میں خداتعالیٰ نے معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی۔ جس کے بعد آپ عبادات میں ہمہ تن مصروف رہتے۔ پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں ادا کرتے اور بقیہ وقت بہشتی مقبرہ میں دعائیں کرتے گزارتے۔
آپ کی اہلیہ بھی صوم و صلوٰۃ کی بہت پابند اور باقاعدہ تہجّد گزار تھیں۔ بہت صفائی پسند تھیں اور نماز کے لئے ایک الگ صاف ستھرا کپڑوں کا جوڑا رکھا ہوتا تھا۔ نام لے لے کر خلفاء، بزرگان سلسلہ اور دکھی انسانوں کے لئے لمبی لمبی دعائیں کرتیں۔ غرباء کی بہت ہمدرد تھیں۔ اور ہر عسرویسر میں خدا کی رضا پر راضی رہتیں۔