محترم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍جولائی 2002ء میں محترم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کا ذکر خیر مکرم انتصار احمد نذر صاحب نے کیا ہے۔
محترم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کو مجلس خدام الاحمدیہ کراچی میں بطور قائد اور پھر ایک لمبا عرصہ نائب امیر کراچی کے طور پر خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔ کراچی میں جماعت کی مساجد اور دیگر جائیدادیں بنانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ آخری وقت میں بھی ڈاکٹر عقیل بن عبدالقادر آئی ہسپتال کی تعمیر کی نگرانی کر رہے تھے۔ اپنی ذات پر کم سے کم رقم خرچ کرتے اور بچت کرکے جماعت کی اور غرباء کی خدمت کرنے میں خوشی محسوس کرتے۔ عدالت میں آنے والے فقیروں کو مہنگے بسکٹ خرید کردیتے کہ شاید انہوں نے ایسے بسکٹ نہ کھائے ہوں۔
1953ء میں جو انسپکٹر آپ کی جاسوسی کرنے کیلئے پیچھے لگا رہتا تھا اور بہت تنگ کرتا تھا وہ بعد میں بہت تنگدست ہوگیا اور آخر آپ کے پاس آکر امداد کا طالب ہوا۔ پھر اکثر آنے لگا اور کبھی بھی آپ نے اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ آپ بچوں کی نفسیات بھی سمجھتے تھے اور اُن سے بہت مشفقانہ سلوک کرتے، بچے بھی آپ سے بہت مانوس ہوجاتے تھے۔
آپ ایک محنتی، قابل اور دیانتدار وکیل تھے۔ ایک شخص کا مقدمہ آپ لڑ رہے تھے جو ایک پلاٹ پر پچاس سال سے بیٹھا ہوا تھا اور وہ پلاٹ ایک بنک کی ملکیت تھا۔ بنک نے آپ کو پیشکش کی کہ آپ بیس لاکھ روپیہ لے کر اس کیس سے دستبردار ہوجائیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر یہ رقم اُس شخص کو دیدی جائے تو یہ کیس خودبخود ختم ہوجائے گا۔
آپ نڈر، بے خوف اور جرأت مند تھے اور اکثر جماعتی مقدمات کی پیروی کے لئے اندرون سندھ جاتے تھے۔ ایک دفعہ جب آپ سانگھڑ جا رہے تھے تو راستہ میں پولیس نے آپ کو پکڑ لیا کیونکہ آپ نے کلمہ طیبہ کا بیج لگایا ہوا تھا۔ آپ کو DSP کے پاس لے جایا گیا۔ آپ کو اتنی بے فکری تھی کہ DSP کے دفتر میں کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوگئے۔
آپ ایک مستند علمی شخصیت اور شاندار مقرر تھے۔ آپ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب خدا کے فضل ہوتے ہیں تو لوگ سب سے پہلے خدا کو گھر سے نکالتے ہیں، تم ایسا نہ کرنا۔
آپ کی ایک بیٹی محترمہ حور جہاں بشریٰ داؤد صاحبہ کی وفات آپ کی زندگی میں ہوئی۔ اُن کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ نے فرمایا تھا: ’’اکثر پہلوؤں سے مَیں سمجھتا ہوں کہ اپنے باپ کے سب گُن انہوں نے پوری طرح اپنے وجود میں زندہ رکھنے کی کوشش کی اور بے لوث خدمت جس کے ساتھ کوئی دکھاوے کا عنصر نہیں اور انتھک خدمت جو مسلسل سالہاسال تک رواں دواں رہتی ہے یہ وہ دو خصوصیات ہیں جن میں مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دو خصوصیات پوری شان کے ساتھ عزیزہ حوری میں موجود تھیں …‘‘
1953، 1974ء اور 1984ء کے پُرآشوب دَور میں محترم بیگ صاحب کو نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔
میرا نام عبدالمنان صدیقی ولد حکیم عبدالماجد صدیقی ہے مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب میرے سگے پھوپھا تھے اُنکے متعلق اور اُنکی صاحبزادی حُور جہاں جنکو ہم بُشری باجی کہا کرتے تھے اس تحریر میں ساری باتیں سو فیصد سچ ہیں پھوپھا جان کے چہرے پر ہمیشہ مُسکُراہٹ رہتی تھی اور بے انتہاء نرم مزاج شخصیت کے مالک تھے اور بُشری داؤد صاحبہ جو میری بڑی بہن تھیں اُنکے مُتعلق خلیفہ الرابع رحمُہ اللہ نے جو ارشاد فرمایا ہے وہ بہت کافی ہے اللہ تعالی پھوپھا جان کو اور بُشری باجی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور درجات بلند کرے آمین ثُمہ آمین۔