محترم مرزا غلام رسول صاحب پشاوری
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍دسمبر 1998ء میں حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے قلم سے بعض بزرگانِ سلسلہ کا تذکرہ شامل اشاعت ہے جو پرانی اشاعتوں سے منقول ہے۔
1923ء میں جب تحریک شدھی کے خلاف جماعت احمدیہ نے مدافعانہ محاذ قائم کیا تو محترم مرزا غلام رسول صاحب پشاوری اور مجھے، ہم دونوں کو اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ تین ماہ کی رخصت لے کر آئے اور موضع اسپار ضلع متھرا میں متعیّن ہوئے۔ وہاں ایک کچا کوٹھرا مسجد کے طور پر تھا جس کے ساتھ ایک چھپر تلے انہوں نے تنہا ڈیرہ جمایا اور اس خوبی اور حسن تدبیر سے کام کیا کہ معاندین اپنی دراندازیوں میں خائب و خاسر ہوگئے۔ اسی دوران عیدالاضحیہ آئی تو آپ نے قربانی کا گوشت گاؤں میں تقسیم کیا اور شدھی قبول کرنے والوں نے بھی اس گوشت سے لطف اٹھایا۔ یہ خبر ملنے پر آریہ پرچارک سر پیٹ کر رہ گئے اور انہوں نے بڑا مجمع بلاکر اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ چنانچہ چالیس بلوائیوں نے مولوی صاحب مرحوم پر حملہ کردیا اور آپ کو زدوکُوب کرکے چھپر آپ کے اوپر گرا دیا۔ پھر انہوں نے آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی تو حملہ آوروں میں سے وہ لوگ جو مولوی صاحب کے زیرباراحسان تھے، مانع آگئے۔ چنانچہ جان سلامت رہی لیکن حملہ آوروں نے تقاضا کیا کہ ہمارے گاؤں سے نکل جاؤ۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ گاؤں میرے امام نے میرے سپرد کیا ہے، میں اپنا کام کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کا نمونہ دیکھ کر جہاں دوسرے مجاہدین کے حوصلے بلند ہوگئے وہاں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
مولوی صاحب موصوف پر ہونے والے حملہ کی اطلاع پولیس کو دی گئی تاکہ قانونی کارروائی کی جائے اور کسی اور مربی کے خلاف ایسی حرکت نہ ہو۔ لیکن پولیس کی طرف سے ملزمان کا چالان نہ کرنے کی وجہ سے انگریز مجسٹریٹ کی عدالت میں متھرا میں استغاثہ دائر کیا گیا۔ ان دنوں بارہا ایسا ہوا کہ ہم دونوں رات گئے ریل کے ذریعہ متھرا ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو چونکہ کوئی ٹھکانا نہیں تھا اس لئے پلیٹ فارم پر ہی چادر بچھا کر پڑے رہتے۔ ان کاموں میں ایسی لذّت آتی کہ گویا کوئی مشکل بات ہی نہیں۔ مولوی صاحب اُن دنوں جوڈیشل کمشنر پشاور کے ریڈر تھے۔ ناموافق حالات کی وجہ سے مقدمہ میں کامیابی بظاہر مشکل نظر آتی تھی لیکن آپ کی ذہانت، تدبیر اور دعاؤں نے اس مہم کو آسان بنادیا۔ آپ احاطہ عدالت میں ایک طرف جاکر عالمِ تنہائی میں گھنٹوں سربسجود اور دست بدعا رہتے اور جب مقدمہ کے لئے آواز پڑتی تو اکثر جائے نماز سے اٹھ کر ہی عدالت کے کمرہ میں جاتے۔ اس عرصہ میں اُن کی زندہ دلی اور بے تکلّفی میں کوئی فرق نہ آیا۔ عدالت نے فیصلہ میں سولہ ملزمان میں سے تیرہ کو سزائیں سنائیں اور ضمانتیں طلب کیں جبکہ مولوی صاحب کو ایک سو روپیہ ہرجانہ دلوایا گیا۔ یہ فیصلہ سن کر آریہ وکلاء مبہوت رہ گئے۔ مولوی صاحب ایسے مستقیم الحال انسان تھے کہ مقدمہ ختم ہوتے ہی اپنے کام پر جا ڈٹے۔ پھر وہی مسجد کا کچا کوٹھا، وہی چھپّر اور وہی خدمت کا سلسلہ تھا۔