محترم ملک بشیر احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍فروری 2001ء میں مکرمہ حمیدہ بشیر صاحبہ (ہمشیرہ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب) اپنے شوہر مکرم ملک بشیر احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپ محترم ملک عطاء محمد صاحب آف ساہیوال کے فرزند تھے جو آپ کے بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ چنانچہ آپ سب بہن بھائیوں کی پرورش اور تربیت آپ کے نانا حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ کے ہاں ہوئی جو میرے بھی نانا تھے۔ نانا جان اپنی علالت کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتے تھے لیکن بچوں کی نماز باجماعت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ یہی نقش تھا کہ محترم ملک بشیر احمد صاحب نے اپنی آخری بیماری میں بیہوشی کی کیفیت میں بھی نمازکا ذکر ہی کیا۔
آپ پاکستان بننے سے قبل فوج میں شامل ہوئے۔ کھیلوں کے سلسلہ میں جاپان بھی گئے۔ پھر پاکستان کی فوج میں شامل رہے۔ کچھ عرصہ سیالکوٹ اور لاہور میں پرائیویٹ ملازمت بھی کی۔ پھر 1961ء میں ملتان میں دواؤں کی ایک دوکان کھول لی جو دن رات کھلی رہتی تھی۔ اس دوکان کے سامنے برآمدہ میں ایک میز پر سلسلہ کی کتب اور لٹریچر موجود ہوتا جو روحانی علاج کے کام آتا۔ ضرورت مندوں کے علاج کے ساتھ ساتھ اُن کی رہائش اور خوراک کا انتظام بھی کردیتے۔ بلاتفریق مدد کرتے اور کبھی اپنے کاروبار کی پرواہ نہیں کی۔ ایمبولینس سروس بھی شروع کی اور اس کا مقصد بھی خدمت خلق ہی تھا۔ لیکن یہ خدمات بعض لوگوں میں حسد اور مخالفت ابھارنے لگیں۔ آخر 1974ء میں نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ نے دوکان پر حملہ کیا، عملاً بائیکاٹ کردیا گیا اور دکان، گھر اورایمبولینس جلانے کی کوشش بھی کی گئی۔ ایک ماہ ہم کسی عزیز کے ہاں رہے پھر کراچی آگئے۔
کراچی آکر آپ نے پہلے مرغی خانہ کھولا پھر شپ یارڈ پر ذاتی کام کرنے لگے۔ خدمت خلق ہر جگہ جاری رہی اور مخالفت بھی کم نہیں ہوئی۔ جماعتی کاموں میں پیش پیش رہے۔ خود 1948ء میں وصیت کی تھی اور دوسروں کو اس نظام میں شامل ہونے کی نصیحت کرتے رہتے تھے۔ ہمارے بیٹے کو بھی سندھ میں خدمت کی توفیق ملتی ہے۔ آپ کی بیماری کے دوران ایک روز مَیں نے کہا کہ آج وہ نہ جائے تو آپ لیٹے ہوئے تھے، اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ بیٹے کو کبھی بھی خدا کے کاموں سے نہ روکنا، یہ ہمارے لئے سعادت ہے۔
آپ کی وفات 9؍ستمبر 2000ء کو کراچی میں ہوئی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ نے لندن میں نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔