محترم ملک محمد شیر صاحب جوئیہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اکتوبر 2002ء میں مکرم اکرام اللہ جوئیہ صاحب مربی سلسلہ اپنے والد محترم ملک محمد شیر صاحب جوئیہ (ریٹائرڈ ہیڈماسٹر) کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ مکرم نور محمد صاحب جوئیہ کے بڑے بیٹے تھے۔ تدریس کے میدان میں آپ کی محنت اور علم کا ہر شخص معترف تھا۔ دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر کو تبلیغ کی تو اُس نے آپ کی سروس فائل خراب کردی جس پر بہت خوشی کا اظہار کیا کہ خدا کے راستہ میں قربانی کا موقع ملا۔
آپ نے اپنے بچوں میں بھی خدمت دین کا جذبہ پیدا کیا۔ مضمون نگار جب جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھے تو اکثر بیمار رہنے لگے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ربوہ کا پانی اور کھانا ان کے لئے موزوں نہیں ہے۔ چنانچہ پرنسپل جامعہ نے آپ کو لکھا کہ اپنے بیٹے کو واپس لے جائیں۔ آپ نے جواب دیا کہ ہم نے اسے پیدائش سے پہلے ہی وقف کردیا تھا اس لئے اب ہم اس کی نعش تو لے جاسکتے ہیں لیکن یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ یہ زندہ رہے اور مربی نہ بنے۔ نیز لکھا کہ یہ مربی ضرور بنے گا کیونکہ ایک ملاقات کے دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یہ ضرور مربی بنے گا۔
جب مضمون نگار کو تنزانیہ جانے کا حکم ملا تو آپ شدید بیمار تھے اور ہسپتال میں داخل تھے۔ کسی نے کہا کہ روانگی میں چند دن کی تاخیر کے لئے درخواست کی جاسکتی ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ تقرر حضور ایدہ اللہ نے فرمایا ہے اس لئے میری وجہ سے لیٹ نہیں ہونا چاہئے۔
مہمان نوازی کا جذبہ آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ جماعتی عہدیداروں کے علاوہ دیگر مہمانوں کا بھی تانتا بندھا رہتا۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ایک بار تحریک جدید کے ایک انسپکٹر جو دورہ پر آئے تھے بیمار ہوگئے تو آپ نے اُن کی خدمت کے لئے مجھے سکول سے متعدد چھٹیاں کروائیں اور جب پانچ چھ روز بعد وہ صحت یاب ہوئے تو آپ نے نصیحت کرتے ہوئے مجھے کہا کہ مَیں کسی شاگرد یا نوکر کے ذریعہ بھی انسپکٹر صاحب کی خدمت کرواسکتا تھا لیکن تمہارا انتخاب اس لئے کیا تاکہ تمہیں مہمان کی خدمت اور قربانی اور ثواب کے حصول کی عادت پڑے۔
بہت سے غریب طلباء آپ کی مالی اور اخلاقی مدد سے تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ گاؤں کی مسجد، مربی ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس کی تعمیر میں دل کھول کر مدد کی، غریب رشتہ داروں کی مخفی ضرورتوں کا خیال رکھا۔ بہت فیض رساں وجود تھے۔ بہت متوکّل علی اللہ تھے۔ پیسہ جمع نہیں کرتے تھے لیکن جب کبھی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر عطا فرمادیا کرتا تھا۔
ایک بار آپ نے ایک بیوپاری کو بیس ہزار روپیہ میں ٹھیکہ پر اپنا باغ دیدیا۔ ابھی بیعانہ وصول نہیں کیا تھا کہ ایک دوسرے بیوپاری نے 50 ہزار روپیہ کی پیشکش کی لیکن آپ نے اُس کی پیشکش ٹھکرادی اور فرمایا کہ مَیں سودہ کا زبانی اقرار کرچکا ہوں۔
ملازموں کی عزت نفس کا بہت خیال رکھتے۔ ایک بار ہم دو بھائیوں اور ایک کزن نے اپنے پانچوں نوکروں کو غلطیاں کرنے پر نوکری سے نکال دیا تو آپ نے ہمیں نہ صرف ڈانٹا بلکہ اُن کا کام ہم سے کروانا شروع کردیا۔ گُڑ تو ہم بمشکل بنالیتے لیکن پچاس جانوروں کو چارہ ڈالنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ تیسرے ہی دن ہم نے والد صاحب سے معافی چاہی اور نئے نوکر رکھنے کی درخواست کی تو آپ نے ہم سے پہلے نوکروں سے ہی معافیاں منگوائیں اور اُنہیں باعزت طریقے سے واپس نوکریوں پر بحال کیا۔