محترم ملک محمد عبداللہ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30 ستمبر 2010ء میں شامل اشاعت مکرم ملک محمد اکرم طاہر صاحب نے اپنے مضمون میں اپنے والد محترم ملک محمد عبداللہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم ملک محمد عبداللہ صاحب 20؍اگست 1904ء کو سرگودھا کے گاؤں کالرہ میں ایک سنی العقیدہ بریلوی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والدین کا رجحان عرس، میلوں اور مزارپرستی کی طرف تھا۔ آپ اپنے والدین کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور ان رسوم کو ناپسند کرتے تھے۔ فطرتاً آپ مذہبی تھے اور بچپن سے ہی پنجوقتہ نمازی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عین جوانی میں ایک مبشر خواب کے ذریعے احمدیت قبول کرنے کی سعادت بخشی۔اس حوالہ سے اُن کا بیان ہے کہ 1928ء میں مَیں طالب والا ضلع سرگودھا میں محکمہ مال میں پٹواری تعینات تھا۔ ملحقہ حلقہ کا پٹواری احمدی تھا اور مَیں بھی اس پٹواری سے روایتی نفرت دل میں رکھتا تھا۔ میری نفرت کے باوجود اُس احمدی کا اخلاق اور رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔ وہ قادیان سے رسالہ ریویو آف ریلیجنز بھی منگوایا کرتا تھا۔ ایک دن یہ رسالہ مجھے ڈاکئے کے ہاتھ میں دکھائی دیا تو مَیں نے ایک دن کے لئے اُس سے مانگ لیا۔ پھر اس کا مطالعہ کیا تو مجھے بہت مزہ آیا کیونکہ اس میں قرآنی باتوں کا مدلّل ذکر تھا۔ رسالہ پڑھ کر میری احمدیوں سے نفرت کافی حد تک دور ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد مجھے مڈھ رانجھا جانا پڑا۔ وہاں پر ایک چٹھی رساں منشی خیر دین احمدی میرے واقف تھے۔ میں نے رات ان کے ہاں قیام کیا اور اُن سے احمدیت کے بارہ میں سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ پھر دعائیں کرتا ہوا سوگیا کہ اے اللہ! مجھے سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ اُسی رات خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی تصدیق کی۔ صبح میرے کئی دوستوں نے مجھے کہا کہ یہ خواب شیطانی ہے لیکن میرا دل گواہ تھا کہ یہ خواب رحمانی ہے چنانچہ 1932ء میں مَیں نے احمدیت قبول کرلی۔ جب میرے والدین کو میرے قبول احمدیت کا پتہ چلا تو انہوں نے مجھے صرف اتنا کہا کہ تم جو بھی عقیدہ رکھو تمہیں اختیار ہے مگر ہمیں قائل کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ میرے چھوٹے بھائی ملک دوست محمد اس وقت بہاولنگر محکمہ صحت میں ملازم تھے وہ جب چھٹی پر گھر آئے تو مَیں نے انہیں اپنی قبول احمدیت کے بارے میں بتایا۔ وہ کہنے لگے کہ بھائی! بچپن سے آج تک میں نے تمہیں جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اس لئے میں تمہاری ہر بات کو سچ مانتا ہوں اور میری بھی بیعت کروادیں۔ اور یوں وہ بھی احمدی ہوگئے۔
محترم ملک محمد عبداللہ صاحب بسلسلہ ملازمت مختلف مقامات پر تعینات رہے تاہم آپ نے اپنی فیملی کو بھیرہ میں مسجد نُور کے قریب ہی وسیع مکان خریدکر وہاں رکھا۔ 1966ء میں آپ گرداور کے عہدہ سے ریٹائر ہو کر بھیرہ آگئے اور پھر صرف خدمت دین کو اپنا نصب العین بنالیا۔ 1966ء سے لے کر 1974ء تک سیکرٹری مال رہے۔ گھر چونکہ مسجد کے قریب تھا اس لئے جماعتی اور دیگر مہمان بھی اکثر آپ کے ہاں قیام کرتے۔
لوگوں سے چندہ لینے کے لئے آپ کو ملحقہ دیہات میں بھی جانا پڑتا۔ کئی بار میلوں پیدل چل کر چندہ اکٹھا کرتے۔ ایک احمدی دوست بک سیلر تھے۔ بعض اوقات وہ چندہ دینے میں پس و پیش کرتے تو آپ بِلاضرورت ان سے سٹیشنری خرید لیتے اور چندہ کی رسید کاٹ کر انہیں تھما دیتے۔ 1974ء کے پُرآشوب دنوں میں بھی آپ اپنے بیٹوں کو لے کر مسجد جاکر باجماعت نماز ادا کرتے۔ جب شہر میں احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا تو آپ نے ہمیں ایک ایسے بزرگ کے گھر تمباکو اور اُپلوں کی بوری پہنچانے کا حکم دیا جو حقّہ کے بہت رسیا تھے۔
پہلے آپ بھی حقہ نوش فرمایا کرتے تھے اور ایک نوکر اس اہتمام کے لئے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ جلسہ سالانہ قادیان میں حضرت خلیفہ ثانیؓ نے سگریٹ نوشی اور حقہ نوشی سے احباب جماعت کو منع کیا تو آپ نے جلسہ گاہ میں ہی اینٹ سے حقہ توڑ ڈالا اور پھر ساری زندگی حقہ کو منہ نہیں لگایا۔
آپ مارچ 1975ء میں امیر جماعت احمدیہ بھیرہ منتخب ہوئے اور تا وفات یہ خدمت بجالائے۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔ سادہ غذا اور سادہ لباس آپ کا طریق تھا۔ آخر وقت تک آپ کے قویٰ مضبوط رہے اور بغیر عینک کے پڑھتے لکھتے تھے۔ کبھی سہارے کے لئے چھڑی استعمال نہیں کی۔ اپنی بات اور وعدے کے پکے تھے۔ غیر کو تکلیف میں دیکھ کر سخت بے چین ہو جاتے اور کوشش کرتے کہ کسی طرح اس کی تکلیف رفع ہو جائے۔ اگر کوئی دعا کے لئے کہتا تو بار بار دعا کرتے اور اپنے بچوں کو بھی دعا کی تحریک کرتے۔ ہمیشہ گفتگو نصیحت کے رنگ میں کرتے۔ آپ دل کے فیاض اور سخی تھے اپنی اولاد سے خصوصاً بیٹیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔
آپ کے بیٹے جب برسرروزگار ہوئے تو تنخواہ ملنے پر سب سے پہلے چندہ کی ادائیگی کا پوچھتے۔ اگر کوتاہی نظر آتی تو بیٹے سے اپنا خرچہ لینے سے انکار کردیتے۔ جب رسید کٹ جاتی تب رقم پکڑتے۔
آپ کی شادی صحابی یکے از 313 حضرت میاں محمد شفیع سیٹھی صاحبؓ جہلمی کی پوتی سے ہوئی۔ وہ بھی احمدیت کی شیدائی تھیں اور آپ کے جماعتی کاموں میں بہترین ساتھی ثابت ہوئیں۔ 11 جولائی 1982ء کو محترم ملک محمد عبداللہ صاحب نے وفات پائی۔ تین ماہ کی آخری شدید بیماری کی تکلیف کے دوران نہایت صبر و رضا کا مظاہرہ کیا۔ چہرہ سے تکلیف کی شدّت عیاں ہوتی لیکن عیادت کرنے والوں سے یہی کہتے کہ اللہ کا شکر ہے ٹھیک ہوں۔
بوجہ موصی ہونے کے جنازہ ربوہ لایا گیا۔ ازراہ شفقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔
آپ نے 5 بیٹے اور 4 بیٹیاں اور چالیس سے زیادہ نواسے نواسیاں پوتے پوتیاں چھوڑے۔