محترم منور احمد صاحب شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15 دسمبر 2010ء میں مکرم مرزا منور احمد صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جو محترم منور احمد صاحب شہید کے ذکرخیر پر مشتمل ہے۔
مکرم منور احمد صاحب اور آپ کے بھائی مکرم انیس احمد صاحب دونوں 28مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہید ہوگئے۔ آپ کل چار بھائی اور ایک بہن ہیں۔ مکرم منور احمد صاحب بوقت شہادت نائب ناظم اصلاح و ارشاد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور کام کر رہے تھے۔ نہایت اخلاص والے، اطاعت گزار اور خدمت دین کرنے والے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ نڈر اور پُرجوش داعی الی اللہ بھی تھے۔
2004ء میں خاکسار لاہور سے داعیان الی اللہ کا ایک وفد لے کر داعیان کلاس کے لئے ربوہ گیا تو منور احمد صاحب بھی ازخود چند دوستوں کے ہمراہ ربوہ زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے اور دارالضیافت میں قیام پذیر تھے۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ داعیان کی کلاس ہو رہی ہے تو آپ خود ہی اس کلاس میں بھی شامل ہوگئے۔
منور احمد صاحب پیدائشی احمدی تھے لیکن ان کی پرورش اُن کی دادی نے کی تھی جو کہ اہل تشیع تھیں۔ اسی وجہ سے آپ شیعہ ہو گئے اور اس سلسلہ میں متعدد بار چلّہ کشی کی خاطر ایران تک گئے۔ مگر بالآخر احمدیت کی طرف لوٹ آئے۔ آپ کی بعض خدمات پر بڑا رشک آتا تھا۔ بوقت شہادت عمر30 سال تھی۔
آپ کی موبائل فون ٹھیک کرنے کی دکان تھی ۔ اپنی مارکیٹ میں ہردلعزیز تھے۔ اپنی دکان پر اکثر کمپیوٹر پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی CD`s لگادیتے اور دوستوں کو تبلیغ کرتے۔ آپ کی دکان کے سامنے ایک مخالف ٹریول ایجنٹ کا دفتر تھاجس نے انہیں تبلیغ سے منع کیا اور ایک روز بڑا شور مچایا اور دوسروں کو اکٹھا کرلیا کہ اس کو پولیس میں دیں۔ دوسرے لوگوں نے بیچ بچاؤ کروادیا۔ بعد میں وہ ٹریول ایجنٹ بہت سے لوگوں سے پیسے لے کر بھا گ گیا اور بہت بدنام ہوا۔
اپنے والدین کی بہت خدمت کی۔ آپ کی والدہ کی وفات ہوچکی ہے جبکہ والد صاحب زندہ ہیں اور مختلف عوارض میں مبتلا ہیں۔ شہید مرحوم اُن کے علاج معالجہ کا بہت خیال رکھتے۔ روزانہ رات کو اُن کی مالش کرنا اور اُن کو دبانا آپ کا معمول تھا۔
آپ کئی دفعہ دوستوں کو دعا کے لئے کہتے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت دے۔ یہ دعا قبولیت کا شرف پاگئی۔ دہشتگردوں کے حملہ کے دوران جس طرح آپ نے دوسروں کو بچایا اور کسی چیز کی پرواہ نہ کی اس کا تفصیلی ذکر حضور انور ایدہ اللہ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماچکے ہیں۔ وہ لائق تحسین ہے اور آپ کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شہید مرحوم نے اپنے پیچھے بوڑھے والد اور بھائیوں اور ایک بہن کے علاوہ بیوہ اور ایک بچی سوگوار چھوڑے ہیں۔