محترم مولانا بشیر احمد اختر صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍اگست 2007ء میں مکرم مظفر احمد درانی صاحب کے قلم سے محترم مولانا بشیر احمد اختر صاحب کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
محترم مولانا بشیر احمد اختر صاحب سابق امیر و مربی انچارج کینیا سے میرا پہلا رابطہ خط کے ذریعہ اُس وقت ہوا جب 1992ء میں خاکسار کا تقرر کینیا کے لئے منظور ہوا۔ میں نے رہنمائی کے لئے لکھا کہ کینیا کے مخصوص حالات اور موسم میں ذاتی ضروریات کی کونسی اشیاء لے کر آؤں؟ آپ نے مختصر جواب لکھا کہ کینیا میں ضرورت کی ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے، ہاں حکم الٰہی کو پیش نظر رکھیں کہ زادراہ ساتھ لو اور یاد رکھو کہ بہتر زاد راہ تقویٰ ہے۔ اس جواب کو پڑھ کر پہلا نیک تأثر میرے دل میں مرحوم کے لئے پیدا ہوا۔
نیروبی ائیرپورٹ سے آپ خود خاکسار کو ساتھ لے گئے۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ اپنے آٹھ سالہ دَور امارت (1988ء تا 1996ء) میں آپ اپنے دفتری کام بھی خود ہی کرتے تھے۔ جماعتی اخراجات کو کم سے کم رکھ کر زیادہ سے زیادہ کام مکمل کرنے کی کوشش کرتے۔ اپنے ماتحت مربیان و معلمین کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔ جب ہم مرکز میں جاتے تو رات کو اُنہیں کام میں مصروف چھوڑ کرسونے کے لئے جاتے تھے اور جب علی الصبح اٹھتے تو بھی آپ ہم سے پہلے اٹھ کر دفتری کام میں مصروف ہوتے۔
خطبات امام کو سواحیلی میں ترجمہ کر کے ’’اخبار احمدیہ‘‘ میں شائع کرتے۔ اِسے خود ٹائپ کرتے۔ پھر حسب ضرورت پیکٹ بنا کر جماعتوں کو ڈاک یا بس کے ذریعہ بھجوایا کرتے تھے۔ اسی طرح آڈیو کیسٹس پر خطبات کا سواحیلی ترجمہ ریکارڈ کر کے جماعتوں کو بھجوایا کرتے تھے۔ جب MTA کا آغاز ہوا تو آپ نے سواحیلی زبان میں بہت سے پروگرام پیش کئے اور خطبات امام کا سواحیلی ترجمہ MTA پر پیش کرنے کی سعادت مستقل طور پر آپ کے پاس رہی۔
ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بڑی کوشش سے وقت لے کر جماعتی پروگرام پیش کرتے اور یہ آپ کے ذاتی تعلقات پر منحصر تھا جس کے لئے آپ متعلقہ افسران سے تعلقات بنا کر رکھتے تھے۔ انگریزی اور سواحیلی اخبارات میں مضامین اور خطوط لکھنا آپ کا محبوب مشغلہ تھے۔ کسی بھی دینی ایشو پر بات ہوتی آپ کی طرف سے ضرور اس موضوع پر دینی نقطہ نگاہ پیش کیا جاتا تھا۔ اخبارات والے آپ کے تبصرہ جات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ ایسے مضامین اور خطوط کو یکجائی طور پر شائع کرنے کی آپ کی شدید خواہش تھی تاکہ بعد میں آنے والے بھی استفادہ کر سکیں۔
سکول سے تعطیلات کے مہینوں میں آپ ملک بھر کی جماعتوں کا ایک یا دو مرتبہ دورہ کر کے وہاں مختلف تربیتی پروگرام کیا کرتے تھے اور دوران سال قائم ہونے والی جماعتوں کا دورہ لازمی کرتے تاکہ نئے بھائیوں سے تعارف کر کے ان کی تربیت کے پروگرام بنائے جائیں۔ آپ کے پاس کوئی ڈرائیور نہیں تھا تو جماعتی گاڑی کو احتیاط کے ساتھ آپ خود ہی چلایا کرتے تھے۔ اگر دورہ مختصر ہوتا تو بس پر سفر کرتے تھے۔ مزید دیہی علاقوں کا سفر آپ سائیکل پر یا پیدل ہی کرتے اور نوجوان مربیان سے کبھی بھی پیچھے نہیں رہتے تھے۔ ساری رات بس کا سفر کر کے آتے اور پھر سارا دن جلسہ کے سٹیج پر بیٹھتے۔ سیر حاصل تقریریں کرتے۔ سوالوں کے جوابات دیتے اور اگر دوسرے دن کا کوئی پروگرام نہ ہوتا تھا تو رات کو ہی بس کا سفر کرکے نیروبی تشریف لے جاتے۔ ان سفروں میں نوجوان مربی صاحبان تو تھک جایا کرتے تھے مگر آپ نے کبھی تھکاوٹ کا اظہار نہ کیا۔ آپ کا جسم بڑا ہی چست اور پھرتیلا تھا۔ دورہ جات کے دوران سادہ گھروں، مسجدوں کی صفوں بلکہ سکولوں کے فرش پر سو کر بھی رات بسر کر لیا کرتے تھے۔
صوبہ کوسٹ کے ضلع کوالے کے Mirihini نامی علاقہ میں جب سینکڑوں پھل ایک ہی دفعہ حاصل ہوئے تو اسی سلسلہ میں مزید رابطے اور پروگرام جاری تھے کہ آپ بھی دورے پر تشریف لائے۔ یہ سانپوں کا علاقہ تھا۔ دن کے وقت کئی سانپ دیکھے۔ Vygato نامی گاؤں میں آم کے درخت کے نیچے جلسہ دن کے وقت ہورہا تھا کہ صفوں کے نیچے سے سانپ نکل کر بھاگ گیا۔ رات گزارنے کے لئے وہاں کچے پرائمری سکول کا کچے فرش والا ایک کمرہ میسر ہوسکا جس کی کھڑکیاں اور دروازے بھی نہ تھے اور دیواروں میں بھی جگہ جگہ سوراخ تھے لیکن آپ ہر حال میں راضی تھے۔
جلسہ سالانہ اور شوریٰ کے مواقع پر آپ مہمانوں کے ساتھ شامل ہوکر کھانا کھایا کرتے تھے اور دورہ جات کے دوران بھی بڑی خوشی سے مقامی کھانے کھاتے تھے۔ جس سے مقامی احباب کو خوشی ہوا کرتی تھی۔ نظام جماعت اور اطاعت خلافت کی پابندی کے سلسلہ میں آپ ننگی تلوار کی طرح تھے۔
دعوت الیٰ اللہ کا آپ کو بے حد شوق تھا۔ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ وقت تنگ ہوتا یا کھلا، موقع کی مناسبت سے پیغام پہنچا دیا کرتے۔ جہاں بھی جاتے وہاں کے سرکاری افسران سے مل کر جماعت کا تعارف کرواتے اور کتب کا تحفہ پیش کرتے۔ میدان تبلیغ کے بہادر شہسوار تھے۔ اس راہ میں آپ کو قتل کی دھمکیاں بھی ملیں اور راستے روکے گئے مگر آپ نے کسی بھی خطرہ کی پرواہ کئے بغیر اس فریضہ کو سر انجام دیا۔ ایک دفعہ حکومت کے شعبہ انٹیلی جنس نے آپ کو بلاکر کہا کہ آپ کے خلاف شکایت ہے کہ آپ کا تبلیغ کا انداز جارحانہ ہے جس سے نقص امن کا خطرہ ہے، اس لئے کیوں نہ آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے؟ دوران مکالمہ انٹیلی جنس والوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کا تبلیغ کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں تو اس وقت بھی اپنا کام کررہا ہوں اور یہی میرا تبلیغ کا طریق ہے۔ اس پر انہوں نے مطمئن ہو کر آپ کو جانے کی اجازت دیدی۔
بی بی سی ریڈیو لندن کی سواحیلی سروس نے ’’حرمت خنزیر‘‘ پر ایک پروگرام پیش کرنا تھا۔ جس کے لئے انہیں ایک یہودی اور ایک مسلم عالم کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مسلمان عالم کے طور پر آپ کو منتخب کیا گیا۔ آپ کا سواحیلی زبان میں انٹرویو مختلف وقتوں میں BBC ریڈیو کی سواحیلی سروس سے نشر کیا گیا۔ اس کے شروع میں آپ کا جماعتی تعارف بھی شامل تھا۔
1996ء کے آخر میں آپ واپس پاکستان تشریف لے آئے۔ لیکن MTA کی سواحیلی سروس کی ذریعہ مشرقی افریقہ کے احباب کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کو پورا کرتے رہے۔