محترم مولانا بشیر احمد قمر صا حب
محترم مولانا بشیر احمد قمر صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے مکرم عبدالرزاق بٹ صاحب مربی سلسلہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍جولائی 2009ء میں بیان کرتے ہیں کہ
غالباً 1972ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی تحریک پر جب خدام پاکستان کے مختلف علاقوں سے سا ئیکلوں پر سالانہ اجتماع پر تشریف لائے تو اُن میں ایک بزرگ پگڑی والے بھی تھے۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ محترم مولوی بشیر احمد قمر صاحب ہیں اور خدام کے ہمراہ سائیکل پر اپنے حلقہ سے تشریف لائے ہیں۔ بعد میں خاکسار کو غانا میں آپ کے قریب رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ خدا کے اُن بندوں میں سے تھے جو بڑی عاجزی سے زمین پر چلتے ہیں، راتیں قیام وسجود میں گزارتے ہیں اور دن ڈرتے ڈرتے بسر کرتے ہیں۔
خلافت اور قرآن مجید کی محبت میں آپ سرشار تھے اور جماعت کے افراد سے رابطے کے وقت گفتگو کا محور صرف یہی دو باتیں ہوا کرتی تھیں۔اور فرمایا کرتے تھے کہ جو مربیان جماعت کی تربیت میں رابطے کے وقت ان دو باتوں کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں اُن کا تربیت کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ افراد جماعت کی تربیت کے سلسلہ میں فرد یا خاندان سے رابطہ اور تربیت کرنے کا آپ کو اللہ تعالیٰ نے خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔
آپ خدا کے ا ن بندوں میں سے تھے جن کا دل ہر وقت خدا کے گھر میں اٹکا رہتا ہے اور جنہیں ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار رہتا ہے، جو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلتے ہیں۔ ایک بار آپ نے جامعہ میں طالب علمی کے زمانہ کا ایک عجیب واقعہ سنایا کہ مکرم ابو الحسن قدسی صاحب جا معہ میں آپ کے استاد تھے۔ ایک دن آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ مجھے کچھ رقم کی ضرورت ہے۔ آج رات فر شتے نے بتا یا کہ یہ رقم بشیر احمد قمر سے لے لو۔ آپ نے بتایا کہ اگرچہ میرے ظاہری حالات ایسے نہ تھے کہ میرے پاس اتنی رقم ہوتی لیکن یہ عجیب الٰہی تصرف تھا کہ خدا کے فضل سے اس وقت اتنی ہی رقم میرے پاس موجود تھی جو مَیں نے پیش کردی اور چند دن بعد حسب و عدہ آپ نے وہ رقم واپس فرمادی ۔
غانا میں ایک دفعہ ایک میٹنگ میں ایک بزرگ نے اس رنگ میں بات کی جس سے میں نے تکلیف محسوس کی۔ میری طبیعت میں جوش آیا اور میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔ آپ میرے ساتھ والی کرسی پر تشریف فرما تھے۔ فوراً قرآن کریم کی وہ آیت جس میں حضرت موسیٰؑ حضرت ہارون ؑ کو سرزنش کرتے ہیں، نکال کر میرے سامنے کردی۔ پڑھ کر بہت لطف آیا۔
ایک دفعہ کشمیر کے تر بیتی دورہ میں خاکسار آپ کے ہمراہ تھا۔ پندرہ دن کا پروگرام تھا۔ مکرم اللہ دتہ صاحب مرحوم آف آرام باڑی ضلع کو ٹلی کے ہاں قیام تھا۔ مولانا صاحب نے فرمایا دونوں کا ایک جگہ قیام تربیت کے کام کو محدود کردے گا۔ آپ چونکہ بیمار ہیں یہاں ہی قیام کریں، مَیں پہاڑ پر دوسرے حلقہ میں قیام کرلیتا ہوں۔ یہ مقام (ھیلاں) پہاڑی کے اوپر ہے اور چڑھائی بھی کافی مشکل ہے۔ وہاں ایک مخلص احمدی مکرم چوہدری شریف احمد صاحب نے آپ سے عرض کی کہ پہاڑی کے دامن سے پانی لانے کی بڑی مشکل ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ آسانی پیداکر دے۔ کچھ عرصہ بعد جب خاکسا ر اُسی علاقہ میں گیا تو دیکھا کہ میزبان نے صحن میں کنواں کھود رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن مکان کی مرمت کے لئے مٹی کی ضرورت تھی، صحن میں سے مٹی کھودنے پرچشمہ جاری ہوگیا۔ اب وہاں ایک خوبصورت مہمان خانہ بھی بنوایا ہے اور مسجد کی تعمیر بھی جاری ہے۔