محترم مولانا بشیر احمد رفیق خان صاحب

(مطبوعہ انصارالدین یوکے ستمبر و اکتوبر 2021ء)

سیّد حسن خان صاحب

مکرم ومحترم بشیر احمد رفیق خان صاحب مرحوم ومغفور ایک ایسی شخصیت تھے جن کے اوصاف اوران کی نیکیوں، ان کے احسانات اور ان کی ہمددریوں کاپوری طرح تذکرہ کرنا خاکسار کے لئے بے شک بہت ہی مشکل امر ہے ۔ خاکسار جب 1972 ء میں انگلستان آیا تو اس وقت آپ امام مسجد فضل لندن تھے اورآپ کے نائب مولانا عبدالوہاب آدم صاحب مرحوم ومغفور تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ ہر احمدی بھائی، بہن کا بہت خیال رکھتے، اُن کے گھروں میں بھی جاکر حال چال پوچھا کرتے اورہر طرح سے ان کی مدد کرتے تھے۔

بشیر احمد رفیق خان صاحب

خاکسار کے ساتھ آپ کا سلوک بے لوث تھا اورآپ اس عاجز کے ساتھ بڑی شفقت کا سلوک کیا کرتے تھے۔ اُن دنوں جب میرے سسر محترم چوہدری محمد نذیر باجوہ صاحب مرحوم نے آپ سے مشورہ لیا کہ مجھے میری بیٹی کے لئے کوئی اچھا سا رشتہ بتائیں تو امام صاحب نے اُن سے کہا کہ مَیں تو صرف ایک ایسے لڑکے کا بتا سکتا ہوں جس کی مَیں ہر طرح سے گارنٹی بھی دے سکتا ہوں اور فی الحال اس سے اچھا رشتہ میری نظر میں کوئی نہیں ہے۔ پھر امام صاحب نے میرا نام لیا اور یہ بھی کہا کہ اس کے سارے خاندان کو میں ذاتی طورپر جانتا ہوں۔ اس پر میرے سسر صاحب مرحوم نے انہیں کہا کہ آپ کہتے ہیں تو میں راضی ہوں۔ چنانچہ اس طرح رشتہ طے ہوکر میری شادی ہوئی۔ اُن دنوں خاکسار اپنی بڑی ہمشیرہ آپا صفیہ مرحومہ اہلیہ سید صادق نور مرحوم کے گھر میں رہتا تھا۔ لہٰذا مرحومہ نے میری شادی کے تمام انتظامات کیے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اس کی جزا عطا فرمائے۔
ایک دفعہ محترم امام صاحب مرحوم پاکستان جارہے تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ جب ہم لاہور پہنچے تو آپ کا انتظام حضرت چوہدری سر ظفرا للہ خان صاحب ؓ کے ساتھ محترم چوہدری حمید نصراللہ صاحب امیر جماعت لاہور کی کوٹھی میں تھا۔ آپ نے ازراہ شفقت خاکسار کو بھی اپنے ساتھ ہی ٹھہرایا اور وہاں بھی ہر طرح سے میرا خیال رکھتے رہے۔

خاکسار نے اپنی کتاب ’’ ربوہ کی چند پرانی یادیں‘‘ لکھی تو شائع ہونے سے قبل مسودّہ محترم امام صاحب کو دکھایا۔ آپ نے اسے پوری طرح پڑھا اور تعریفی نوٹ بھی لکھا جس میں فرمایا کہ ’’یہ کتاب اگرچہ مختصر سی ہے لیکن ایک ادبی شہ پارہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا انداز تحریر نہایت سادہ اور دلکش ہے اورمبالغہ آرائی سے کلیۃً پاک ۔یہ حقائق اور معلومات کا ایک بہتا دریا ہے ۔‘‘
کتاب کے علاوہ میری ذات اورمیرے نانا جان سید احمد نور کابلی ؓ اورمیرے مامو ں سید محمد نور صاحب مرحوم کے بارے میں بھی بہت سے تعریفی کلمات لکھے۔


خاکسار کو کئی بار آپ کے گھر بھی جانے کا موقع بھی ملا تو آپ ہمیشہ ہی بہت محبت اور شفقت کا سلوک فرماتے، میرے ماموں جان اور ناناجان مرحوم ؓ کے بارے میں بہت سے ایمان افروز واقعات سناتے۔ اکثر بتایا کرتے تھے کہ جب میں نے قادیان جاکر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ لیا تو مَیں اردو یا پنجابی سے بالکل نابلد تھا اس لئے مجھے قادیان میں آباد پٹھان بزرگوں کا سہارا لینا پڑا جن میں محترم سید محمد نور صاحب کابلی (میرے ماموں جان مرحوم) اور خان میر خان صاحب وغیرہ کے علاوہ (میرے ناناجان) حضرت سید احمدنورکابلیؓ بھی شامل تھے۔ ان سب کی پاکیزہ محفلوں میں بیٹھ کر مجھے بہت سکون ملا کرتا تھا ۔
مکرم ومحترم بشیر احمد رفیق خان صاحب کی شفقت صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ آپ کی شفقت، اخلاص اورہمدردی تو ہرایک کے ساتھ ایسی ہی ہوا کرتی تھی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کے اہل وعیال پر اپنے بے شمار فضل اوررحمتیں نازل فرمائے اورخوشیوں بھری زندگی دے ۔آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں