محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍مارچ 2010ء میں محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کا ذکر خیرمکرم فضل احمد شاہد صاحب سابق رکن شعبہ تاریخ احمدیت کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد ابتدا سے 30؍مئی 1983ء تک اکیلے شعبہ تاریخ میں خدمات بجا لاتے رہے۔ ان کے ساتھ کوئی معاون، کلرک یا مددگار کارکن نہیں تھا۔ مئی 1983ء میں خاکسار کی باقاعدہ تقرری شعبہ تاریخ میں ہوئی۔ اور پھر 17؍ اگست 1988ء تک مجھے اُن کے ساتھ کام کرنے اور اُن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ جو کام سپرد کرتے اُس بارہ میں ہر طرح سے رہنمائی بھی فرماتے۔
محترم مولانا صاحب نے جماعتی کاموں کے لئے بیحد محنت کی اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر محنت کی۔ نہایت مشکل دَور میں تاریخ احمدیت کی بیس جلدیں شائع کروائیں اور مزید کئی غیرمطبوعہ جلدوں کا مواد جمع کیا۔ کئی دیگر کتب کے مصنف بھی تھے۔ قریباً تمام جماعتی اخبارات و رسائل میں آپ کے مضامین باقاعدگی سے شائع ہوتے۔ عام لوگوں سے لے کر خلیفۂ وقت تک کے لئے ریسرچ کے بے شمار مختلف کام سرانجام دیئے۔ عام اجلاسات سے لے کر مرکزی جلسوں اور اجتماعات تک میں بے شمار تقاریر کیں۔ تبلیغ کا جنون تو تھا ہی لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی تحریک دعوت الی اللہ کے بعد آپ نے جمعرات کا دن دعوت الی اللہ کے لئے وقف کردیا تھا۔ کسی بھی وقت آنے والے مہمانوں کا سوال سن کر جواب دینے کے لئے ہمیشہ مستعد رہتے۔ اور ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں اداکرنا بھی روزمرّہ امور میں شامل تھا۔ باقاعدگی سے درس دینا، کبھی نکاح پڑھانا اور کبھی جنازوں کے ساتھ جانا اور تدفین تک ساتھ رہنا۔ ابتلاؤں میں لوگوں کی تسلّی کے سامان کرنا۔ پھر اپنے بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کرنا۔ گویا ایک جہان تھا جو جاری تھا۔
محترم مولانا صاحب خداتعالیٰ کے شکر گزار تھے اور اس کے بندوں کے بھی۔ جب اسیرراہ مولیٰ رہ کر واپس آئے تو کچھ عرصہ بعد آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت تعزیت کرنے والوں سے کہنے لگے کہ اگر یہ حادثہ اس وقت پیش آتا جب میں جیل میں تھا تو مجھ پر کس قدر قیامت ٹوٹتی اور کیا حال ہوتا۔ گویا خدا کے اس پہلو سے شکرگزار ہیں کہ اس نے ان کی وفات سے قبل جیل سے رہائی عطا کی اور بوقت وفات اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ تھے ۔ جیل سے واپس آ کر آپ خدا کے اُن فضلوں کا ذکر بھی کرتے جو جیل میں انہوں نے دیکھے۔ بندوں کی شکر گزاری والا پہلو بھی بہت نمایاں تھا۔ دوسروں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے۔
آپ کی زندگی سادہ تھی اور واقف زندگی ہونے کی وجہ سے قناعت پسند بھی تھے۔ جماعت سے کوئی زائد مطالبہ نہ تھا۔ میرے ذاتی علم کے مطابق دفتر کی سٹیشنری کا بھاری خرچ اپنی جیب سے ادا کرتے۔ اسی طرح خود کئی مرتبہ اظہار فرمایا کہ انہوںنے ذاتی جیب سے ہزار ہا روپیہ خرچ کرکے ذاتی کتب خریدیں جنہیں لائبریری کی زینت بنادیا۔
آپ خلافت کے فدائی تو تھے ہی لیکن مربیان اور سلسلہ کے بزرگان کو بھی بہت احترام کی نظر سے دیکھتے اور اس کا اظہار زبانی اور تحریری ہر دو طریق سے ہوتا۔ خدام سلسلہ کو ’’اللہ کے شیر‘‘ کہہ کر پکارتے۔