محترم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 و 25؍فروری 2005ء میں مکرمہ راضیہ سید صاحبہ نے اپنے والد محترم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب کے تفصیلی حالات اور اُن کی نیک سیرت کے واقعات قلمبند کئے ہیں۔
محترم سید احمد علی شاہ صاحب بطور مربی کراچی، حیدر آباد، ڈیرہ غازی خاں، مظفر گڑھ، فیصل آباد، سیالکوٹ، سرگودھا اور گوجرانوالہ میں خدمات دینیہ بجالاتے رہے۔ بعد ازاں اصلاح و ارشاد مقامی اور اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں نائب ناظر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ مجلس افتاء کے ممبر بھی رہے۔ علم و فضل تقویٰ و پرہیزگاری کے لحاظ سے اہم مقام رکھتے تھے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ دعوت الی اللہ اور تربیت کا کام کرنے کی توفیق ملی ۔ اس دوران دیگر ادیان اور فرقوں کے علماء کے ساتھ آپکے بے شمار مناظرات و مباحثات ہوئے۔ آپکی طبیعت میں انکساری بہت تھی۔ بہت دعا گو اور صاحب رؤیا و کشوف تھے۔
آپ 2؍دسمبر 1911ء کو عید الاضحی کے روز گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں محترم سید حیات شاہ صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ مڈل تک تعلیم گھٹیالیاں سے حاصل کی۔ مگر مزید تعلیم کے لئے حالات سازگار نہ تھے جس کا آپ کو بہت افسوس تھا۔ آپ اکثر خواب دیکھتے کہ میں گاؤں میں آسمان پر بہت اونچا اڑ رہا ہوں کوئی مجھ تک نہیں پہنچ سکتا۔
آپ کے والد صاحب بہت نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ آپ نے بھی ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو نماز اور تلاوت قرآن کا پابند پایا۔ بچپن سے ہی تہجد کا بھی شوق تھا اور علی الصبح اٹھنے کے لئے آپ نے ایک رسّی اپنی ٹانگ میں باندھ کر دوسرا سرا ایک بزرگ ہمسایہ کے صحن میںلٹکا رکھا تھا۔ چنانچہ رسّی کھینچ کر وہ آپ کو تہجد کے لئے جگایا کرتے۔
ایک بار آپ ایک مناظرہ سننے کے لئے سوہاوہ ضلع گوجرانوالہ گئے۔ وہاں تلاوت اور نظم پڑھی تو احمدی مناظر محترم مولوی غلام احمد بدوملہوی صاحب نے آپ کے والد صاحب کو پیغام بھیجا کہ میں اس لڑکے کو گھر میں رکھ کر مدرسہ احمدیہ میں تعلیم دلانا چاہتا ہوں تاکہ یہ مربی بن سکے کیونکہ میں اس لڑکے میں بہت جوہر دیکھ رہاہوں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ چنانچہ آپ قادیان چلے آئے۔ مطالعہ کا شوق اس قدر تھا کہ احمدیت کے موافق اور مخالف علماء کی تصنیفات پڑھتے اور جمع کرتے۔آپ کا یہ قیمتی سرمایہ 1947ء میں قادیان میں ضائع ہوگیا۔ اپنے شوق کی تسکین کے لئے دوبارہ محنت سے لائبریری بنائی مگر 1974ء میں گوجرانوالہ میں ان قیمتی کتب اور گھر کو آگ لگا دی گئی۔ تیسری بار پھر لائبریری بنائی۔
ابھی آپ زیرتعلیم تھے کہ آپ کا پہلا پبلک مناظرہ، تلونڈی جھنگلاں میں مولوی محمد یعقوب صاحب بھامبڑی اہل حدیث کے ساتھ ہوا۔ مرکز کی طرف سے آپ کو ہوشیار پور، آگرہ، کراچی تک بھجوایا جاتا جہاں آپ نے مختلف فرقوں کے علماء، پادریوں اور یہودیوں سے مناظرے کئے۔ عیسائی مذہب کا وسیع مطالعہ تھا اور بائبل کے متعدد نایاب نسخے موجود تھے۔
جب آپ نے مولوی فاضل کا امتحان دینا تھا تو بعض وجوہ کی بناء پر امتحان کی تیاری نہ ہوسکی۔ اس پر آپ نے رؤیا دیکھی جس میں کامیابی کی نوید تھی۔ پھر امتحان سے قبل رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے تمام سوالات بھی بتا دئیے چنانچہ آپ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئے اور مربیان کلاس میں داخل ہوگئے۔
آپ کی شادی حضرت سید عزیز الرحمٰن صاحب بریلوی کی بھانجی سیدہ صالحہ بانو صاحبہ سے ہوئی۔ مسجد اقصیٰ قادیان میں حضرت مصلح موعودؓ نے نکاح پڑھایا۔
* ساری زندگی آپ نے بے شمار معجزات دیکھے۔ جب آپ کی عمر آٹھ برس تھی تو آپ ایک کنویں میں گر گئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کو گھر میں نہ پایا تو گھبرا کر باہر آئیں۔ وہاں ایک نابینا شخص بیٹھے تھے جنہوں نے بتایا کہ انہوں نے کنویں میں گرنے کی آواز سنی ہے۔ چنانچہ کنویں میں رسے ڈالے اور ماہر غوطہ خور اتارے مگر آپ نہ ملے۔ اس شخص کا اصرار تھا کہ بچہ کنویں میں ہی ہے۔ آخر تین چار بار تلاش کے بعد آپ کو بے ہوشی کی حالت میں کنویں کی تہہ سے نکالا گیا۔ سر پر گہرا زخم تھا جس کا چھ ماہ علاج جاری رہا۔ آپ کا بچنا معجزہ تھا۔
آپ کو بچپن سے ہی درس قرآن سننے کا بے حد شوق تھا۔ بعد میں بارہا مختلف مقامات پر درس قرآن دینے کا موقع ملا۔
* جب کراچی میں مربی تھے تو حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی آپ کو یہ ہدایت تھی کہ جب بھی کوئی کام ہو بلا تکلف رات ہو یا دن میرے پاس آجائیں۔ چنانچہ ایک جماعتی کام کے سلسلہ میں آپ ایک بار اُن سے ملنے گئے تو پہریدار نے بتایا کہ اندر اہم میٹنگ ہورہی ہے۔ آپ نے اپنے نام کی چٹ بھجوائی تو حضرت چوہدری صاحب میٹنگ سے ننگے پاؤں تیز تیز چلتے باہر آئے اور فرمایا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے سلسلہ کا مربی باہر کھڑا رہے اور میں اندر بیٹھوں۔ مربیان کا تو وقت ہی بہت قیمتی ہوتا ہے۔‘‘
* ایک بار حضرت مصلح موعودؓ کراچی تشریف لائے۔ ایک روز مجلس عرفان میں آپ نے بھی سوال پوچھا تو حضورؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’آپ مربی ہیں آپ کیوں پوچھتے ہیں؟‘‘۔ پھر آپ کے سوال کا جواب بیان فرمادیا۔ لیکن محترم شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ حضور کا یہ فرمانا میرے لئے ایک سبق عظیم تھا کہ مربی کو ہر مسئلہ خود تحقیق کر کے معلوم کرنا چاہئے۔ اگر نہ سجھ آوے تو خدا تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرے۔ چنانچہ حضور کے اس ارشاد کے بعد کئی مسائل میں خدا تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور قبولیت دعا کا نشان دیکھا۔
* آپ نے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ ناظر اصلاح و ارشاد کی ایک بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں اُن کے ماتحت نظارت اصلاح و ارشاد میں مربی تھا تو اکثر ان کے پاس غیر از جماعت لوگ کاموں کے سلسلہ میں موجود دیکھتا۔ ایک بار مَیں نے عرض کی کہ چوہدری صاحب آپ کے آرام کا بھی کوئی وقت ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ اگر میں اپنے گاؤں جوڑا ضلع قصور میں ہوتا تو چوہدری نظام دین صاحب کے لڑکے فتح محمد کو ملنے کون جاتا۔ یہ لوگ میرے پاس اس وجہ سے آتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک خادم اور جماعت کا عہدیدار ہوں۔ اور حضرت مسیح موعود کو خدا نے آنے والے لوگوں کی کثرت کے پیش نظر پہلے ہی الہاماً فرمایا تھا کہ جب کثرت سے لوگ تیری طرف رجوع کریں گے تو تیرے پر واجب ہے کہ تو ان سے بدخلقی نہ کرے اور تجھے لازم ہے کہ ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے۔ اس لئے میرے پاس خواہ کسی وقت کوئی آئے میں ملنے سے کبھی انکار نہیں کروں گا۔ اُن کا کام ہو سکے گا تو ضرور کروں گا ورنہ معذرت کرلوں گا۔
چنانچہ آپ نے اپنے گھر میں تاکید کر رکھی تھی کہ میں بیمار ہوں، خواہ رات ہو یا دن، یا میں کام کرتا ہوں، کسی کو ملے بغیر واپس نہیں کرنا۔
* ایک واقعہ آپ ہمیشہ سناتے تو آپ کی آواز گلوگیر ہوجایا کرتی۔ آپ کے استاد حضرت صوفی مطیع الرحمٰن صاحب بنگالی اکثر آپکو گھر بلا کر حضرت مصلح موعودؓ کی یہ نظم سنانے کا ارشاد فرماتے۔ ؎

ملت احمد کے ہمدردوں میں غم خواروں میں ہوں
بے وفاؤں میں نہیں ہوں میں وفاداروں میں ہوں

محترم شاہ صاحب بیان کرتے تھے کہ پھر صوفی صاحب بطور مبلغ امریکہ تشریف لے گئے اور 12 سال بعد واپس تشریف لائے تو میں کراچی کا مبلغ انچارج تھا۔ صوفی صاحب کے بیٹے لطف الرحمٰن اور دیگر احباب جماعت ائیرپورٹ استقبال کے لئے پہنچے۔ صوفی صاحب ایک کمرہ میں تشریف فرما ہوئے تو ان کا بیٹا قریب ہی بیٹھا تھا۔میں نے غور کیا کہ صوفی صاحب اپنے بیٹے سے کوئی بات نہیں کرتے۔ میں نے عرض کی: آپ اس لڑکے کو پہچانتے ہیں؟ فرمایا: نہیں۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے پرنم آنکھوں کی وجہ سے بمشکل اشارہ کیا کہ یہ لطف الرحمٰن ہے۔ وہ نہایت افسردہ چپ چاپ بیٹھا تھا۔ حضرت صوفی صاحب بے تابانہ اٹھے، فرط جذبات سے آنسو رواں تھے۔ اپنے بیٹے سے بغلگیر ہوئے اسے چوما اور پیار کیا۔
* آپ نے اپنی تمام زندگی جماعتی ایثار وقربانی میں گزاری اور اولاد کو بھی ہمیشہ یہی نصیحت تھی کہ کبھی بھی دعا اور توکل کا دامن نہ چھوڑنا کیونکہ واقفین زندگی کے بیوی بچے بھی ان کے ہمراہ ایک طرح وقف ہی ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے انہیں بیوی بھی صابرہ شاکرہ عطا فرمائی جنہوں نے ہر لحاظ سے ایک واقف زندگی شوہر کا بھر پور ساتھ دیا۔ باوجود یکہ ایک خوشحال فیملی سے آئی تھیں مگر کبھی شکوہ زبان پر نہ لائیں۔ فاقے بھی آئے لیکن کبھی شکوہ نہیں کیا۔
محترم شاہ صاحب جماعتی کاموں کے لئے میلوں پیدل سفر کرتے۔ اکثر بھنے ہوئے چنے ساتھ لے کر چلتے۔ تکلیفیں بھی اٹھائیں، بیماریاں بھی آئیں مگر قدم قدم پہ آپ کو نصرت الٰہی حاصل رہی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات بیٹیوں اور سات بیٹوں سے نوازا۔ جب بڑی بیٹیاں شادی کے قابل ہوئیں تو کچھ پریشانی لاحق ہوئی۔ دعا کی تو بڑے زور دار الفاظ میں عربی میں فرمایا گیا:

نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ

یعنی ہم تجھے بھی اور تیری اولاد کو بھی رزق دیں گے۔ کہتے ہیں اس کے بعد میں کبھی متفکر نہیں ہوا۔
جب بھی کسی بہن بھائی کی شادی کے معاملات ہوتے تو ہم سب بھائی بہنوں کو پاس بلا کر خاص دعا کی تحریک کرتے کہ اپنے اس بہن بھائی کی نئی زندگی کی شروعات اور رشتہ کے بابرکت ہونے کی بہت دعا کریں۔ کبھی بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہ دی۔بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ بڑی باجی کی پیدائش پر خواب دیکھا کہ اس بیٹی کے دو سال بعد بیٹا ہوگا لیکن پھر دوسری اور تیسری اور چوتھی بیٹی پیدا ہوئی۔ چوتھی بیٹی کی پیدائش پر ایک خاتون نے افسوس کا اظہار کیا تو کہا مجھے تو خوشی ہے کہ میرے آقا ﷺ کی بھی تو چار بیٹیاں تھیں۔ پھر بھائی جان سید علی احمد صاحب طارق (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) کی ولادت ہوئی۔
جب بڑی باجی کی شادی ہوئی تو ایک برس گزرنے کے بعد امی نے کچھ فکر مندی کا اظہار کیا ۔ تو آپ کو اپنی رؤیا یاد آگئی اور کہا فکر نہ کرو دو سال بعد لڑکا ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ بچہ آٹھ سال کا تھا تو ایک حادثہ میں شدید زخمی ہوگیا۔ حالت تشویشناک تھی۔ ایسے میں آپ بچہ کے والدین کو تسلی دیتے تھے کہ جس بچے کی پیدائش کی خبر اتنے برس پہلے خدا تعالیٰ نے دی ہو، اس کو خدا کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ چنانچہ آج وہ بچہ جرمنی میں ہے اور صاحب اولاد ہے۔
* 1974ء کے پُرآشوب حالات میں آپ گوجرانوالہ میں مربی تھے۔ دیگر احمدیوں کے ساتھ آپ کا گھر بار بھی لوٹا اور جلایا گیا۔ ان حالات میں گھر گھر احمدیوں کی خیریت دریافت کرتے۔ اس موقع پر میری بڑی بہن مبارکہ سید کو بلوائیوں نے مارا بھی کہ تم احمدیت کا انکار کرو۔ تو انہوں نے نہایت دلیری سے ان کے مطالبہ کو مسترد کر دیا۔ انہی حالات میں قریشی احمد علی صاحب شہید کے نام کی مناسبت سے ابا کے متعلق غلط خبر پھیل گئی۔ عزیزو اقارب اور بڑے بھائی جان سخت پریشان تھے کہ ابا اور افراد خانہ کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ مرکز سلسلہ خبر پہنچی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نمائندہ بھیجا کہ اباجان اور تمام احمدیوں کے متعلق پتہ چلاؤ کہ وہ کس حال میں ہیں اور کہاں ہیں۔ وہ نمائندہ بہت مشکل سے امیر صاحب کے مکان تک پہنچا۔ وہاں آپ کی شکل دیکھی تو فوراً واپس پلٹے۔ آپ نے روکا کہ کھانا کھا کر جائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ حضور سخت پریشان ہیں، کھانا نہیں کھا سکتا، آپ کو دیکھ لیا ہے، حضور کو اطلاع کرنی ہے۔
* اپنی زندگی میں آپ نے بیماریاں، تکلیفیں اور قید وبند کی صعوبتیں اٹھائیں۔ ان مواقع پر خلفاء کی قبولیت دعا کے نشان بھی دیکھے۔ چنانچہ اپنڈکس کا آپریشن ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دعا کی برکت سے صحت یاب ہو کر گھر آگئے مگر ایک ماہ نہ گزرا تھا کہ مثانے میں پتھری ہوگئی۔ بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی اور کافی مقدار میں خون ضائع ہوجاتا۔ کمزوری بے حد تھی اور فوری طور پر دوسرا آپریشن خطرہ سے خالی نہ تھا۔ آپ نے حضورؒ کی خدمت میں حالت لکھی کہ اگر حضورؒ نے اجازت فرمائی تو آپریشن کرواؤں گا ورنہ نہیں۔ حضورؒ نے فرمایا: ’’آپریشن کروالیں‘‘۔ آپ نے کہا: اب تو حضور کی خاص دعا سے ہی بچ سکتا ہوں۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا: ’’گھبرائیں نہیں میں دعا کروں گا۔‘‘اور ہسپتال جاتے ہوئے یہ مژدہ تحریر فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کی امان میں وھوالشافی‘‘۔ چنانچہ حضور کی دعاؤں سے صحت یاب ہوکر خدمت سلسلہ میں حاضر ہوگئے۔
اسی بیماری کے موقع پر آپ کی اطاعت ایسی تھی کہ ایک بار حضورؒ کا پیغام ملا کہ ایک کام کے سلسلہ میں آپ خود جائیں اور واپس آکر اطلاع دیں۔ بیماری کی نوعیت اور کمزوری کا یہ حال تھا کہ چلنا پھرنا دوبھر تھا۔ ہر وقت خون کا اخراج ہوتا تھا۔ لیکن امی سے کہا کہ مجھے گاڑی میںبستر لگوا دواور تکیوں کے سہارے بٹھا دو میں خود جاؤں گا۔ جتنا اطاعت گزار خادم تھا، آقا بھی اتنا ہی مشفق۔ ابھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ دفتر کا آدمی دوبارہ آیا کہ حضور کا حکم ہے کہ آپ ہرگز سفر نہ کریں، آپ تو بیمار ہیں۔ صحت یابی کے بعد بھی حضورؒ نے فرمایا کہ جیپ پر دورہ نہ کیا کریں بلکہ دوسری آرام دہ گاڑی استعمال میں رکھیں۔
* 1982ء میں مجلس انصار اللہ کے ارشاد پر صوبہ سرحد کے بعض مقامات کے دورہ میں مردان میں رؤیا دیکھی کہ تکلیف آنے والی ہے مگر خدا کی طرف سے انجام کار رہائی اور کامیابی حاصل ہوگی۔ چنانچہ اسی دورہ میں صدر جماعت، آپ کو اور آپ کو ایک بیٹے کو (جو سفر میں آپ کے ہمراہ تھا) گرفتار کرکے جیل میںڈال دیا گیا۔ جیل میں رؤیا میں دیکھا کہ ضمانت پر رہا ہو کر حضور کی خدمت میں تمام حال سنا رہا ہوں۔ چنانچہ تین دن کے بعد ضمانتیں ہو گئیں اور اسلام آباد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حالات عرض کئے۔ کیس چلتا رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا وصال ہوگیا۔ مخالفین نے ضمانتیں منسوخ کرانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے خاص دعا کی درخواست کی گئی تو حضورؒ نے 9جولائی 1982ء کو خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو اس کیس کے لئے خصوصی دعا کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ مخالف فریق ضمانتیں منسوخ کروانے میں کامیاب نہ ہو سکا جس کا ذکر حضورؒ نے اپنے اگلے ہی خطبہ میں فرمادیا۔
* آپ بہت پُرحکمت نصیحت فرماتے۔ ایک دورہ میں علم ہوا کہ چند نوجوان باقاعدہ نماز ادا نہیں کرتے کیونکہ مصروفیت بہت ہے۔ اس پر آپ نے کہا کہ مَیں خلیفہ وقت کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنے لگا ہوں۔ اس پر اُن میں سے ہر نوجوان نے کہا کہ میرا نام بھی دعا کے لئے لکھ لیں۔ آپ نے کہا کہ میں مضمون کچھ یوں لکھوں گا، آپ دستخط کر دیں کہ ’’حضور ہم بہت مصروف ہیں نماز کے لئے فرصت نہیں ملتی۔ حضور دعا کریں کہ ہمارا کاروبار کوئی نہ رہے، رشتہ دار بھی کوئی نہ رہے، کوئی ملازمت نہ رہے تا کہ ہم فارغ ہو کر نماز ادا کر سکیں‘‘۔ جونہی آپ نے یہ کہا سب نے چلّا کر کہا کہ ہم آج سے باقاعدہ نماز ادا کریں گے۔
* آپ ہمدرد اور مشفق وجود تھے۔ خدمت خلق کا جذبہ بے حد تھا۔ غریبوں کی امداد، سودا سلف لانا، آٹا پسوا کر لا دینا۔ غرض جو کام بھی کسی نے کہا انکار نہیں کیا۔ میرے گھر میں ایک ملازمہ اپنی آٹھ دس سال کی بچی ہمراہ لاتی تھی۔ مجھے کہتے اس بچی سے کام مت لینا۔ آپ کی وفات پر بعض عزیزوں کا کہنا تھا کہ ہمیں لگا کہ ہم آج یتیم ہوئے ہیں۔
چار پانچ سال قبل کراچی میں فالج کا حملہ ہوا۔ شدید بیماری دیکھی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر حضور کی دعاؤں کو قبول کیا اور دوبارہ صحت یاب ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھا۔ پہلے والے شب وروز لوٹ آئے۔ پھر امی کی اچانک وفات کے بعد آپ باری باری اپنے سب بچوں کے پاس رہا کرتے۔ لوگ آپ کو کثرت سے خطوط لکھتے اور ملنے آتے۔ تمام خطوط کا جواب باقاعدگی سے لکھتے۔
بچپن میں ایک بار مَیں شدید بیمار ہوگئی۔ عید کا دن تھا۔ ڈاکٹر کا ملنا محال تھا۔ آخر ایک احمدی ڈاکٹر ملے جنہوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایسے میں ابا نے میرے قریب ہی جائے نماز بچھائی اور سجدہ میں تڑپ تڑپ کر میری صحت کے لئے دعا مانگی۔ جونہی دعائیں بلند ہورہی تھیں مجھے لگا کہ میری تکلیف میں کمی محسوس ہوتی جارہی ہے جیسے ہی ابا نے سجدہ سے سر اٹھایا تو مجھے لگا کہ تکلیف تھی ہی نہیں۔
جب میں دوسری بار امید سے تھی تو میری صحت بہت کمزور تھی۔ بار بار ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ میری حالت کے پیش نظر ڈاکٹر نے آپریشن کا خیال ظاہر کیا اور ساتھ زندگی سے مایوسی بھی۔ آپ کو پتہ چلا تو مجھے کہا گھبرانا نہیں، میں بہت دعا کر رہا ہوں۔ اسی روز نماز مغرب میں اللہ تعالیٰ نے بغیر آپریشن بچی کی بشارت دی اور نماز عشاء کے وقت بچی پیدا ہوئی۔ پھر مجھے گھر لے آئے۔ امی بیماری کی وجہ سے بڑے بھائی کے ہاں تھیں۔ آپ نے ایک ماں کی طرح میرا خیال رکھا۔
آپ مستجاب الدعوات تھے۔ میرے ایک بہت قریبی عزیز اولاد نرینہ سے محروم تھے۔ انہوں نے خاص دعا کی درخواست کی چنانچہ آپ کی دعا کے نتیجہ میں اللہ کے فضل سے ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔
میرے شوہر کی کافی عرصہ قبل چوری ہوگئی۔ چور قیمتی سامان کے علاوہ بہت ضروری کاغذات بھی ہمراہ لے گئے۔ ابا نے دعا کے وعدہ کے ساتھ انہیں قرآن کریم پڑھنے کی تاکید کی اور کہا جلد بازیابی ہوجائے گی۔ چنانچہ تمام چوری شدہ اشیاء بر آمد ہوگئیں۔
آپ کئی کتابوں اور پانچ صد سے زیادہ مضامین کے مصنف تھے۔ ڈائری لکھنے میں بہت باقاعدہ تھے۔ وفات تک نماز جمعہ باقاعدہ ادا کی۔ قرآن پاک کی باقاعدگی سے تین چار بار تلاوت کرتے۔ نوافل، اشراق، چاشت وغیرہ باقاعدگی سے ادا کرتے۔ آخری دن تک نمازیں وقت پر ادا کیں۔ ہمیشہ باوضو رہتے۔
چند گھنٹوں کی معمولی علالت کے بعد 10؍اگست 2003ء کو سرگودھا میں اپنے حقیقی محبوب آقا کے حضور حاضر ہوگئے۔ آپ کی تدفین حضور ایدہ اللہ کے ارشاد کے مطابق قطعہ خاص میں ہوئی جو کہ اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے سے بتا دیا ہوا تھا اور ایک دفعہ بہشتی مقبرہ جاتے ہوئے اشارہ کرکے وہ جگہ بھی بتائی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں