محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب
محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب بستی مندرانی ضلع ڈیرہ غازیخان میں حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب کے ہاں 19؍اپریل 1908ء کو پیدا ہوئے۔
13 سال کی عمر میں آپ کو مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کروا دیا گیا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کے ہم جماعت بھی رہے۔ آپ کا حافظہ کمال کا تھا، جو پڑھتے زبانی یاد ہو جاتا۔ ایک ہی سال میں دو جماعتوں کا امتحان دیا اور کامیابی حاصل کی۔ 1930ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور کامیابی کے بعد بہاولپور میں مبلغ سلسلہ متعین ہوئے۔ بعد ازاں بطور معلم مدرسہ احمدیہ خدمات انجام دیں۔ 1936ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1938ء سے نصرت گرلز ہائی سکول میں معلم ہوگئے اور قاضی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ 1939ء سے 1944ء تک ضلع ڈیرہ غازیخان میں رہے پھر جامعہ احمدیہ کے پروفیسر مقرر ہوئے جہاں سے آنکھوں کی تکلیف کے باعث ریٹائرڈ ہوئے۔
محترم مولانا صاحب اردو، عربی اور فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے اور تینوں زبانوں میں مختلف شعراء کے ہزارہا اشعار آپ کو ازبر تھے۔ اپریل 1982ء میں آپ کی وفات ہوئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کے کلام کے بارے میں فرمایا ’’میں نے شروع سے آخر تک یہ تمام کلام پُرلطف اور پُرمغز پایا ہے۔ ممکن نہیں کہ انسان اس پر محض سرسری نظر ڈالتے ہوئے گزر جائے … زبان بھی نہایت سلیس اور ہلکی پھلکی ہے، طرز بیان نہایت دلنشیں، فارسی، اردو اور عربی پر برابر دسترس۔ ماشاء اللہ۔…‘‘
محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب کا ذکر خیر اور آپ کے کلام پر تبصرہ ماہنامہ ’’خالد‘‘ اپریل 1998ء میں مکرم میر انجم پرویز صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم مولانا صاحب کا نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
سکونِ دل جو میسّر نہیں تو کچھ بھی نہیں
اگر سکوں ہے تو حاصل ہیں دو جہان مجھے
میں اس کے قدموں پہ سر رکھ کے جاں نثار کروں
ملے جو راہِ محمدؐ کا راہ دان مجھے
بنالوں آنکھ کا سرمہ میں یا رسول اللہ
کبھی ملے جو تری خاک آستان مجھے
مجھے یقیں ہے کہ آخر میں ڈھونڈلوں گا تجھے
قدم قدم پہ ہے ملتا ترا نشان مجھے