محترم مولانا عبد الرحیم اوگامی صاحب درویش
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم سید ناصر احمد ندیم صاحب کے قلم سے محترم مولانا عبدالرحیم اوگامی صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
کتابی چہرہ ، ستواں ناک ، لمبی اور سفید برف جیسی داڑھی ، سر پر سفید اور اونچے طرّے والی پگڑی ، ہاتھ میں عصا اور ہر موسم میں شیروانی زیب تن۔ خوبصورت حلیہ اور مخصوص لباس میں ملبوس رہنے والے یہ بزرگ وادی کشمیر کے معروف واعظ، خطیب اور مبلغ محترم مولوی عبدالرحیم صاحب اوگامی تھے جو 22؍ فروری 2008ء کو بعمر 80سال وفات پاگئے۔ آپ کی سحرانگیز شخصیت کو راہ چلتے لوگ بھی رُک رُک کر دیکھا کرتے تھے۔ جہاں بھی کھڑے ہوتے وہاں نگاہوں کا مرکز بن جاتے۔
آپ اندازاً 1928ء میں اوگام نامی گاؤں میں عبدالعزیز ڈار صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے استاد حضرت مولوی قطب الدین صاحبؓ کے ذریعہ 1944ء میں بیعت کی اور 1946ء میں حصول تعلیم کے لئے قادیان چلے گئے۔ تبلیغ کا جنون تھا۔ عربی زبان پر عبور حاصل تھا اور مقامات حریری ازبر تھے۔ بعض اوقات علمی مجلس میں بوریت دُور کرنے کیلئے سبع معلقات میں سے منتخب اشعار سنا سنا کر محفل کو قہقہہ زار بناتے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر عرب احمدیوں سے عربی میں گفتگو کرکے اپنی پیاس بجھاتے۔ عبادت گزار، تہجد گزار اور صاحب کشف بزرگ تھے۔ کافی عرصہ تک بحیثیت دیہاتی مبلغ خدمات سلسلہ سرانجام دیتے رہے۔ ملازمت سے فراغت کے بعد بھی تبلیغی فریضہ کو اس رنگ میں ادا کرتے رہے کہ باقاعدہ مبلغین میں بھی بہت کم اس پایہ کے نظر آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے لحن داؤدی سے نوازا تھا جس کا بھرپور استعمال کرتے تھے۔ افراد جماعت کو ان سے ایک والہانہ محبت تھی اور وہ آپ کے منتظر رہا کرتے تھے۔ مستجاب الدعوات بزرگ اور عالم باعمل تھے۔ احمدی غیر احمدی سب آپ سے فیض یاب ہوتے۔313 درویشان کی فہرست میں آپ کا نمبر 100واں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اولاد اور مالی وسعت عطا کی تھی۔ موصی تھے۔ آخری عمر میں حصہ جائیداد کی ایک معقول رقم ادا کی۔
آپ کی وفات کے وقت موسم انتہائی ناساز اور برف باری کا تھا تاہم وادیٔ کشمیر کے کونے کونے سے احمدی احباب آپ کے جنازہ میں شامل ہوئے۔ نعش قادیان لائی گئی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔