محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اپریل 2011ء میں مکرمہ رشیدہ تسنیم خان صاحبہ کے قلم سے سابق مفتی سلسلہ محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ1955-1956ء میں مجھے تعلیم حاصل کرنے کے لئے حافظ آ باد سے ربوہ بھجوایا گیا تو اپنی کلاس فیلو سے دوستی ہوگئی جو محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب کی بیٹی تھیں۔ اسی وجہ سے مجھے اس گھرانہ سے تعلق پیدا ہؤا جو ہمیشہ قائم رہا۔ مولوی صاحب کے ہاں سارا دن آنے جانے والوں کا تا نتا سا بندھا رہتا ۔ آپ کے ساتھ اکثر اوقات کوئی نہ کو ئی مہما ن ہوتا جو اکثر شریک طعام ہوتا۔ مولوی صاحب سب سے پہلے روٹیوں کے نیچے سے بچا ہوا ٹکڑا نکال کر کھا تے اور ٹھنڈا پا نی پی کر نسبتاً اونچی آواز میں الحمدللہ پڑھتے۔میں نے آپ کو کبھی اونچی آواز میں بات کرتے اور کسی پر اعتراض کر تے نہیں سنا۔
پڑھائی سے فراغت پاکر ہم دونوں جا معہ نصرت کالج کے ٹیچنگ سٹاف میں شامل ہوگئیں۔ دونوں کی شادیاں بھی کالج کے اساتذہ سے ہوگئیں۔ تب روابط مزید گہرے ہو گئے جو بچوں میں بھی پروان چڑھے۔ اسی زمانہ میں مولوی صاحب جامعہ احمدیہ کے کوارٹر میں منتقل ہوگئے۔ یہاں تین کمرے تھے۔ ایک دروازہ جا معہ کی طرف اور دوسرا ریلوے لا ئن کی طرف کھلتا تھا۔میں نے یہ دونوں دروازے کبھی بند نہیں دیکھے۔ جا معہ کے اردگرد چار دیواری کی وجہ سے جن خوا تین کو اپنا گھر دُور پڑتا، ان کے لئے مولوی صاحب کے گھر کا صحن شاہراہِ عام تھا۔
عین صحن کے درمیان پلنگ پو شوں سے ڈھکی دو چارپائیوں کے ساتھ چند کرسیاں رکھی رہتیں اور درمیان میں ایک چھوٹی سی میز ، جس پر ساری ہانڈی کا سالن ڈونگے میں آجاتا۔ روٹیاں پک کر آتی رہتیں۔ اس دسترخوان پر اکثر پانچ سے بیس تک مہمان کھانے والے ہوتے۔عصر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کے پاس کوئی نہ کوئی عورت اپنے نہایت نجی قسم کے جھگڑوں کی تفاصیل بیان کر رہی ہوتی۔ گھر سے باہر مردانے میں بھی یہی سلسلہ جا ری رہتا۔ احمدی رشتہ دار ہوں یا دیہات سے علاج کی غرض سے آ نے والے غیر از جماعت رشتہ دار، سب کو یہاں حتی الوسع آرام دہ سکونت ملتی۔
آپ کبھی کبھار نہایت سادہ الفا ظ میں کسی آیۂ کریمہ کی تفسیر بھی کر دیا کر تے تھے۔ ایک دن گھر میں ملکی حالات کے خراب ہو نے پر تبصرے ہو رہے تھے۔ تو مولوی صاحب نے فرمایا:’’بچپن میں اس آیۂ کریمہ کی سمجھ نہیں آیا کر تی تھی کہ جس نے ایک معصوم بے گناہ کو قتل کیا اس نے سارے لوگوں کو قتل کیا‘‘ اب سمجھ آ ئی ہے کہ ایک انسانی جان لینے کے بعد احترامِ انسا نیت ختم ہو جا تا ہے۔
رمضان میں اگر زیادہ لو گ روزہ سے ہو تے تو گرم اور سرد مشروب اور اچھے کھا نوں کا اہتمام ہوتا۔ اگر اکیلے مولوی صاحب کا رو زہ ہو تا تو قطعی کو ئی تکلّف نہ ہو تا۔ آپ کا معمول تھا کہ ٹھنڈے پا نی کے دو چار گھونٹ پی کر نماز پڑھنے چلے جا تے اور واپس آ کر کھا نا کھاتے۔
مزاح بہت عمدہ کرتے۔ چائے کی مجلس میں چائے پی کر دانت نکال کر نَل پر دھوتے۔ اور کہتے : لوگ کہتے ہیں چائے کے بعد ٹھنڈے پا نی سے کلّی نہیں کرنی چاہئے، دانت نکل جا تے ہیں۔ اسی لئے میں پہلے دانت نکال لیتا ہوں۔
خاموشی سے کچھ کہے بغیرنماز کے لئے چلے جا تے۔ یہ انداز دوسروں کو بھی نماز پڑھنے کی رغبت دلادیتا۔
گر میوں میں سارا صحن چارپائیوں سے کھچا کھچ بھر جاتا۔ اگر کوئی مہمان جا نے کا پروگرام بنا نے لگتا تو امی جی اُسے ’’صرف چند دن اور‘‘ رکھنے کا اس طرح اصرار کرتیں کہ جیسے یہ نعمت پھر کبھی ہا تھ نہیں آئے گی۔ گرمیوں میں ایک درمیانی سی عام چارپائی جس کی پائینتی پر دری بچھی ہوتی اور اوڑھنے کیلئے ایک تہہ شدہ چادر اور ایک تکیہ ہو تا، مولوی صاحب عشاء کی نماز کے بعد آکر شور و ہنگامے سے بے نیاز سکون سے اُس پر سو جا تے۔ کسی کو اپنے آرام کے لئے خاموش وغیرہ کرانے کا اس گھر میں رواج نہیں تھا۔
مولوی صاحب آنکھ کے آپریشن کے بعد بھی ایک چھوٹی حمائل شریف ہاتھ میں رکھتے اور ہلکی آواز میں تلاوت کرتے رہتے۔ آپ اتنے انہماک سے کر سی پر بیٹھ کر مطالعہ کر تے کہ نووارد کے لئے فیصلہ مشکل ہو تا کہ آپ سورہے ہیں کہ جا گ رہے ہیں۔ بیماریوں میں بھی آپ کا یہی رویّہ ہو تا۔ آپ کی اہلیہ کی لمبی بیماری کے دوران مجھے چند روز آپ کے ہاں رہنے کا موقع ملا۔ میری جب آنکھ کھلتی مولوی صاحب نفل ادا کر رہے ہوتے۔ تازہ دم ہو نے کے لئے نَل پر جا کر بار بار ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے ۔ یہ سلسلہ اتنا لمبا ہوتا کہ میں تھک کر سو جا تی۔ سردیوں میں گیس کے ہیٹر اور گرمیوں میں پنکھے کے نیچے مولوی صاحب کی چارپائی کے پاس ایک یا دو بلّیاں ضرور بیٹھی ہو تیں۔ کتّے کی اس گھر میں گنجا ئش نہ تھی۔ اس تین کمروں پر مشتمل حیرت کدہ میں مولوی صاحب کے سب بچوں نے و ظیفے لئے، اور اعلیٰ تعلیم حا صل کی۔ دو بچے ڈاکٹر بنے، پتہ نہیں ان کی کتا بیں کہاں ہوتی تھیں اور یہ پڑھتے کہاں تھے ؟ انہی کمروں میں مہمان ٹھہرتے اور انہی میں سب بچوں کی شادیاں ہوئیں۔
مولوی صاحب کا مزاح بہت مختصر اور ذومعنی ہو تا۔ ایک بار فرمانے لگے: ربوہ کے ریذیڈنٹ مجسٹریٹ ملنے آئے ہوئے تھے۔ایک احمدی دوست کے بارے میں پوچھنے لگے کہ ’’نماز پڑھتا ہے کہ نہیں؟ ‘‘ میں نے جواب دیا: ’’ولی را ولی می شناسد ‘‘( در اصل یہ صاحب خود بھی پابند صوم و صلوٰۃ نہیں تھے)۔ مولوی صاحب جواب دے گئے اور کسی کی پردہ دری بھی مناسب نہ سمجھی۔
ایک بار میرے کسی واقفکار نے ویزے کے سلسلے میں شو آف کرنے کیلئے مجھ سے کچھ رقم مانگی۔ سفیدپوشی میں بڑی مشکل ہوتی ہے۔ اچا نک مولوی صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے ساری بات آپ کو بتا دی۔ آپ نے رقم پوچھی اور چیک کا ٹ دیا۔ ہفتے عشرے میں رقم واپس مل گئی اور میری عزت بھی رہ گئی۔
میرے بیٹے کا نکاح اُس کی خواہش پر مو لوی صاحب نے پڑھایا۔ اسی دن شام کو ملنے چلے آ ئے، اور فرمایا: میں دیکھنے آ یا ہوں کہ نکاح میں نے پڑھایا تھا کہیں ٹوٹ نہ گیا ہو!۔
میرا بیٹا بغرض تعلیم امریکہ جانے لگا تو مولوی صاحب نے نصیحت کی کہ قرضہ وغیرہ لے کر پڑھ لینا۔ اگر چھوٹے موٹے کام سے پیسے کا چسکا پڑگیا تو پڑھ نہیں سکو گے۔
ایک بار کسی نے مولوی صاحب سے میرے بارہ میں پوچھا کہ یہ آپ کی کیا لگتی ہے؟ آپ خاموش رہے۔ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور چہرہ سے اظہار بھی ہوگیا۔ بعد میں گھر آکر دیگر عزیزوں کی موجودگی میں یہ واقعہ بیان کرکے کہنے لگے کہ میرا دل نہیں چا ہتا تھا کہ مَیں اس کا بیٹی کی سہیلی کے طور پر تعارف کراؤں، مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ بھانجی کہوں یا بھتیجی ؟ اور یہ ناراض ہی ہوگئی۔اور پھر ایک کہانی سنائی کہ: دو دوستوں نے آ پس میں ایک کچا دھاگہ پکڑ رکھا تھا، دھاگہ کبھی ٹوٹتا نہ تھا۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا: جب ایک طرف سے کچھاؤ بڑھتا ہے تو دوسرا ڈھیلا کر دیتا ہے۔ پھر کہنے لگے آج میں یہ کھچاؤ کم کرنے آیا ہوں۔