محترم مولانا محمد سعید صاحب انصاری

محترم مولانامحمد سعید انصاری صاحب 9؍ جنوری 2004ء کو 88سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آپ ایک نہایت محنتی، مخلص اور باوفا خادمِ سلسلہ اور واقفِ زندگی تھے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍فروری 2004ء میں مکرم میر انجم پرویز صاحب کے قلم سے محترم مولانا محمد سعید انصاری صاحب کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔

 

میر انجم پرویز

 

آپ کے والد محترم کا نام حکیم مولوی محمداعظم اور والدہ محترمہ کا نام سکینہ بیگم تھا۔ والد صاحب ضلع گورداسپور کے گاؤں پنڈوری وینساں کے رہنے والے تھے جو قادیان سے پندرہ میل دُور ہے۔ بعد ازاں موضع تھہہ غلام نبی منتقل ہوگئے۔ آپ کی پیدائش اسی گاؤں میں 10؍مارچ 1916ء کو ہوئی۔ آپ کے والد صاحب نے 1924ء میں قادیان مستقل رہائش اختیار کر لی۔ آپ کے والدین دونوں موصی تھے اور قادیان کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں۔
آپ کے والد کو حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ سے ہم پیشہ اور ہم مسلک ہونے کی وجہ سے بڑی عقیدت تھی اور حضورؓ کے تقویٰ اور طبّی مہارت کے قائل اور مداح تھے۔ اسی بنا پر قبولِ احمدیت سے قبل ہی اکثر قادیان آکر ان کے درس قرآن میں شریک ہوتے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے بڑے بیٹے قاضی محمد رشید صاحب کو بغرض تعلیم، تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں داخل کیا جہاں سے انہوں نے میٹرک کیا اور 1911ء میں بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوگئے۔ لیکن آپکے والد صاحب نے خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ابتدائی ایامِ خلافت میں بیعت کی توفیق پائی۔
مکرم سعید انصاری صاحب نے 9سال تک اپنے والدین سے تعلیم پائی۔ پھر 1925ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی چوتھی کلاس میں داخل ہوئے۔ 1926ء میں پرائمری پاس کرکے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ 1933ء میں مدرسہ احمدیہ کی سات جماعتیں پاس کرکے جامعہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ اُس وقت جامعہ کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق تھا۔ جامعہ احمدیہ میں دو سال مولوی فاضل کیلئے اور دو سال مربیان کلاس کے لئے ہوتے تھے۔ مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد طلبہ کو اختیار ہوتا تھا کہ وہ مربیان کلاس میں داخلہ لیں یا نہ لیں۔
1926ء میں آپ کی والدہ کی وفات ہوگئی۔ 1933ء میں ایک رات سونے سے پہلے حسبِ عادت دعا کرنے کے بعد آپ اپنا محاسبہ کررہے تھے کہ اچانک خیال آیا اگرچہ والد نہایت شفقت سے میری تمام ضرورتیں پوری فرماتے ہیں لیکن میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے پوری کوشش کروں گا۔
چنانچہ آپ اپنے والد صاحب کی اجازت سے چھٹیاں گزارنے کیلئے لاہور آگئے اور پانچ روپے ماہوار پر ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا۔ آپ کا خط پہلے ہی اچھا تھا اور مزید بہتر بنانے کیلئے ایک مشہور خوشنویس سے خطاطی سیکھنی شروع کی اور ڈیڑھ ماہ میں کتابت کرنے کے قابل ہوگئے۔ پھر قریباً سوا سال لاہور میں کتابت کرکے معقول رقم جمع کی اور دسمبر 1934ء میں قادیان واپس آکر مولوی فاضل کا داخلہ بھجوادیا۔ لیکن ایک عجیب صورت حال اُس وقت پیدا ہو گئی جب آپ کے ایک بزرگ کلاس فیلو محترم حافظ محمد رمضان صاحب جو نابینا تھے، آپ کے پاس آئے اور اپنی اس پریشانی کا ذکر کیا کہ انہوں نے مولوی فاضل کا امتحان دینا ہے لیکن لکھنے والا کوئی نہیں مل رہا۔ جب آپ نے اپنے والد صاحب سے حافظ صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا تو والد صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنے ایک سال کی قربانی کر کے حافظ صاحب کی مدد کردیں۔ چنانچہ 1935ء کی بجائے آپ نے اپنا مولوی فاضل کا امتحان 1936ء میں پاس کیا۔
1938ء کے بعد آپ کتابت کا کام کرتے رہے اور ٹیوشنز بھی پڑھاتے رہے۔ 1938ء میں ہی مربیان کلاس میں داخلہ کے لئے انٹرویو دیا اور تمام امیدواروں میں سے صرف آپ منتخب ہوئے اور بارہ روپے ماہوار وظیفہ مقرر ہوا۔ 1939ء میں میٹرک پاس کیا۔ پھر جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد چند سال آپ نے مختلف اداروں میں کام کیا۔ مئی 1946ء میں جب آپ نے زندگی وقف کی تو اس وقت آپ ’’فیروز سنز‘‘ لاہور میں اُردو، عربی اور انگریزی کتابوں کی پروف ریڈنگ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ خطاطی کا کام بھی کرتے تھے جس سے اچھی خاصی آمد ہو جاتی تھی۔
مئی1946ء میں اپنی ملازمت چھوڑکر آپ نے خود کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت اقدس میں وقف کے لئے پیش کر دیا جسے حضور نے ازراہِ شفقت منظور فرمایا۔ 15جون1946ء کو آپ کے وقف کا آغاز ہو گیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی تقرری سنگاپور ملایا کے لئے فرمادی۔
3؍دسمبر کو آپ اور محترم میاں عبد الحئی صاحب سنگاپور کے لئے روانہ ہوئے۔ 9 دسمبر کو ممبئی سے بحری جہاز میں سوار ہوئے اور 14دسمبر کو سنگاپور پہنچ گئے۔قریباً ڈیڑھ سال سنگاپور میں خدمت بجا لانے کا موقع ملا۔ قادیان سے ہجرت کے نتیجہ میں جب جماعت کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا تو آپ کو انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا جانے کا ارشاد ہوا۔ چنانچہ 28مارچ 1948ء کو آپ سماٹرا پہنچ گئے اور وہاں قریباً ڈیڑھ سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ اس زمانہ میں انڈونیشیا اور ولندیزیوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے کام بہت مشکل تھا۔ تاہم دو خاندان جو بیس بائیس افراد پر مشتمل تھے، جماعت میں داخل ہوئے۔ عیسائی پادریوں سے مباحثے بھی ہوئے۔ پھر 1949ء کے اواخر میں آپ کو برٹش نارتھ بورنیو جانے کا ارشاد ہوا۔ چنانچہ آپ دسمبر کے آخر میں وہاں پہنچے اور اکتوبر 1953ء تک وہاں خدمات کی توفیق پائی۔ پھر حضور نے ازراہ شفقت 6ماہ رخصت مرحمت فرمائی اور آپ ربوہ تشریف لائے۔ 5؍اپریل 1954ء کو آپ واپس ’’برٹش نارتھ بورنیو‘‘ کے لئے روانہ ہو گئے اور مزید پانچ سال وہاں کام کرنے کی توفیق ملی۔ آپ کے دور میں دوتین جماعتیں قائم ہوگئیں۔ علاوہ ازیں ایک سہ ماہی رسالہ Peaceجاری کیا۔ اکتوبر1959ء میں ربوہ واپسی ہوئی۔ایک سال بعد دوبارہ سنگاپور ملایا جانے کا ارشاد ہوا۔ 5 جنوری1961ء سے مارچ 1964ء تک وہاں خدمت بجالائے اور 1964ء میں ربوہ میں جامعہ احمدیہ میں پروفیسر مقرر ہوئے۔
ستمبر1967ء میں آپ کو پھر سنگاپور اور ملائیشیا بھیجا گیا جہاں نومبر 1970ء تک خدمت کی توفیق پائی۔ 1970ء میں واپس آکر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں کام کیا۔ اکتوبر1973ء میں پھر انڈونیشیا کے لئے تقرری ہوئی۔ 1974ء سے 1977ء تک آپ کو مغربی جاوا کے علاقہ ’پرہیاگن‘‘ میں بطور مربی انچارج خدمت کی توفیق ملی۔ اپریل 1977ء میں آپ واپس ربوہ آئے تو جامعہ احمدیہ میں تقرری ہوئی۔ 1989ء تک جامعہ احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہے ۔ 1980ء سے1982ء تک جلسہ سالانہ کے موقعہ پر دیگر مقررین کی تقاریر کا انڈونیشین زبان میں رواں ترجمہ کرنے کا کام بھی آپ کے سپرد رہا۔
1980ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو سری لنکا میں پانچ ماہ کا دورہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اسی طرح 1986ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے آپ کو سنگاپور اور ملائیشیا کے دورہ پر چار ماہ کیلئے وہاں بھیجا۔ اسی سال جلسہ سالانہ برطانیہ میں بطور نمائندہ تحریک جدید شرکت کی اور اس دوران اسلام آباد (یوکے) میں ہونے والے مربیان کے ایک ماہ کے ریفریشر کورس کے انچارج بھی رہے۔
1989ء تک آپ جامعہ احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہے۔ اس کے بعد سنگاپور، ملائیشیا کی تاریخ مرتب کرنے کے لئے وکالت تبشیر میں تقرری ہوئی۔ اس کام کی تکمیل کے بعد وکالت تصنیف میں تبادلہ ہوا جہاں آپ تادمِ واپسیں حضرت مسیح موعود ؑ کی عربی کتب کا اردو ترجمہ کرنے میں مصروف رہے۔
خلفائے سلسلہ کے ساتھ آپ کو ہمیشہ محبت اور وفا کا تعلق رہا۔ آپ لطیف ادبی مذاق رکھتے تھے۔ شعرو شاعری میں بھی دلچسپی تھی لیکن باقاعدہ شعرنہیں کہتے تھے۔ MTA کے آغاز پر یہ قطعہ لکھ کر حضورؒ کی خدمت میں ارسال کیا:

روز سنتا ہوں آپ کی باتیں
روز کرتا ہوں آپ کا دیدار
پھر بھی ملنے کی پیاس باقی ہے
کاش فرقت کی یہ گرے دیوار

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں