محترم مولانا محمد صادق سماٹری صاحب کے بعض ایمان افروز واقعات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍نومبر 2006ء میں مکرم عبدالرشید سماٹری صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم مولانا محمد صادق سماٹری صاحب کے بعض ایمان افروز واقعات شامل اشاعت ہیں۔
٭ جنگ عظیم دوم کے دوران جب انڈونیشیا میں جنگ کی وجہ سے ہندوستان سے والد صاحب کا الاؤنس آنا بند ہوگیا تو آپ کو بارہا قرض لینا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی احمدی سے پانچ سو ڈالر قرض اِس امید پر لیا کہ فلاں تاریخ تک الاؤنس آجائے گا۔ لیکن اس تاریخ تک الاؤنس نہ پہنچا اور وہ صاحب جن سے قرض لیا تھا وہ آن پہنچے۔ آپ نے اُنہیں اپنے پاس بٹھا لیا اور دل میں دعائیں کرنے لگے۔ اسی اثناء میں آپ کے ایک ہمسائے سکھ سردار تشریف لائے اور آپ کو بلاکر آپ کی جیب میں پانچ سو ڈالر ڈالے اور کہا کہ مولوی جی! میرے پانچ ہزار ڈالر کوئی کھا گیا تھا اور میں نے نیت کی تھی کہ اگر وہ مل گئے تو اس میں پانچ سو ڈالر آپ کو دوں گا۔ آج وہ پیسے مجھے مل گئے ہیں۔ آپ نے جب وہ پیسے قرض خواہ کو لوٹائے تو انہوں نے بھی پیسے لینے سے انکار کردیا۔ اس پرآپ نے کہا کہ یہ پیسے تو آپ کے لئے ہی آئے ہیں، میرے لئے تو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔
٭ محترم مولوی صاحب نے جنگ میں قحط کے دوران بچوں کو شکرقندی کھلا کر سلادیا اور خود دونوں میاں بیوی بھوکے رہ کر دعا کرنے لگے کہ یا اللہ! ہم نے بچوں سے وعدہ کیا ہے کہ صبح چاول کھلائیں گے مگر یہاں تو کچھ بھی کھانے کو نہیں۔… اسی دوران دروازہ کھٹکا تو آپ نے پوچھا کون؟ جواب ملا: عبدالرحمن۔ (عبدالرحمن ایک مخلص احمدی تھے)۔ مولوی صاحب باہر نکلے۔ بلیک آؤٹ کی وجہ سے اندھیرا تھا گو آپ نے پہچانا تو نہیں لیکن اُنہیں اندر آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ مَیں جلدی میں ہوں، آپ یہ رکھ لیں۔ اور ایک تکیہ کا غلاف چاولوں سے بھرا ہوا پکڑادیا۔ اگلے جمعہ کو جب آپ نے عبدالرحمن صاحب کو تکیہ کا غلاف واپس کیا تو وہ حیرانی سے بولے کہ میں نے تو نہیں دیا۔ آپ نے انہیں یاد دلایا کہ ایسے رات کو آپ ہمیں اس میں چاول دے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو نہیں دیئے اور اتنی رات گئے تو میں جنگ کے دنوں میں گھر سے بھی نہیں نکلتا۔
٭ محترم مولوی صاحب کی بیٹی امۃ السلام کی پیدائش کے دنوں میں بہت پریشانی تھی اور پیسے بالکل نہیں تھے۔ اسی دوران آپ کے بیٹے (راقم الحروف) کو کھیلتے کھیلتے روشن دان میں بنے ہوئے ایک خفیہ دراز سے کافی رقم گلڈرز کرنسی کی شکل میں ملے۔ دراصل یہ مکان جنگ کی وجہ سے ڈَچ لوگ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ مولوی صاحب رقم لے کر راشن خریدنے بازار تشریف لے گئے لیکن جنگ کی وجہ سے دکانیں خالی ہوچکی تھیں۔ وہاں ایک تاجر سکھ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پنجابی بھائی دیکھ کر پوچھا کہ یہاں کیسے آئے ہیں۔ آپ نے کہا کہ راشن لینے آیا ہوں۔ سکھ نے پنجابی میں کہا کہ یہاں آپ کو کچھ نہیں ملے گا، آپ میرے ساتھ چلیں۔ چنانچہ وہ آپ کو گاڑی میں اپنے ساتھ لے گئے اور گودام سے کافی راشن دلوادیا۔ اور آپ نے اس میں تھوڑا حصہ رکھ کر باقی غرباء میں تقسیم کروا دیا۔
٭ 2 دسمبر 1949ء کو محترم مولوی صاحب ربوہ سے سنگاپور کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ ربوہ سے جانے والے پہلے مبلغ تھے جن کو حضرت مصلح موعودؓ نے بنفس نفیس ربوہ ریلوے سٹیشن پر تشریف لاکر اپنی دعاؤں سے الوداع فرمایا۔ پھر 1969ء میں آپ ربوہ سے انڈونیشیا روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو کسی معاند نے صدر سوئیکارنو کو اطلاع دی کہ ایک قادیانی مبلغ آپ کی رعایا کو گمراہ کرنے کے لئے آیا ہے۔ صدر نے آپ کو بلایا تو اس ملاقات کا اُن پر اتنا اچھا اثر ہوا کہ اُنہوں نے آئندہ ہر بڑی سرکاری تقریب میں آپ کو بھی بلانے کا حکم دیا اور جس نے شکایت کی تھی اس کو وارننگ دی گئی۔
٭ سنگاپور کی یونیورسٹی کی طرف سے اسلام پر لیکچر دینے کے لئے جب پہلی بار آپ کو بلایا گیا تو بعد میں یونیورسٹی کی طرف سے بطور معاوضہ دو سو ڈالر کا چیک بھجوایا گیا لیکن آپ نے وہ چیک واپس کردیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس عمل کو سراہا۔ بعد میں آپ نے بے شمار لیکچر یونیورسٹی کی دعوت پر جاکر دیئے۔