محترم مولانا محمد یعقوب طاہر صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18جون 2012ء میں مکرم فیض احمد صاحب گجراتی کے قلم سے ماہر زودنویس اور سیّدنا مصلح موعودؓ کی تقاریر قلمبند کرنے والے محترم مولانا محمد یعقوب طاہر صاحب کا ذکرخیر اخبار ’’بدر‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
زودنویسی ایک بہت ہی مشکل اور محنت طلب فن ہے خصوصاً جب اُس عظیم الشان وجود کے خطبات و خطابات کی ہو جسے خود خدا ئے عرش نے یہ بے مثال ڈگری عطا فرمائی تھی کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ ’’علوم ظاہری و باطنی‘‘ کے الفاظ زبان کے ساتھ ادا کرلینا آسان ہے لیکن ان کے معانی و مفہوم کی تہہ تک صرف وہی عظیم المرتبت انسان پہنچا ہوگا جس کے متعلق خدائے عرش نے یہ الفاظ فرمائے تھے۔ اس عظیم المرتبت مصلح موعود کے ساتھ کام کرنے کے لئے بڑے دل گردے اور شب و روز کی محنت درکار تھی۔ کیونکہ ہر ہر لفظ ایک نکتہ ادق ہے۔ ہر ہر جملہ ایک درس علم ہے اور ہر ہر فقرہ دریائے معرفت ہے۔ اِدھر ایک مشین ہے جو چلتی چلی جارہی ہے اور دقائق و نکات علم و معرفت ہیں جو موتیوں کی طرح جھڑتے چلے جارہے ہیں اور اُدھر ایک کمزور جسم و صحت کا مالک انسان ہے جس کا ہاتھ اور قلم متحرّک ہے اور گھنٹوں تک متواتر مصروفِ حرکت ہے۔ چار چار بلکہ سات سات گھنٹے، علم لدنی کا دریا اپنی پوری تیزی اور روانی کے ساتھ بہتا چلاجارہا ہے اور ایک بیمار سا شخص اس کی تیزی اور روانی کو اپنے حیطۂ قلم میں لاتا جارہا ہے اور وہ بیمار شخص کون ہے، وہی مولوی محمد یعقوب طاہر زود نویس۔ جسے خالق ازل نے پیدا ہی اس لئے کیا تھا کہ اپنے زمانہ کا ایک یکتا اور عظیم المرتبت انسان مصلح موعود کی حیثیت میں اپنی روحانی رفعتوں کے ساتھ علم و معرفت کے دریا بہائے اور وہ کمزور سا زُودنویس اپنے قلم کے سحر سے انہیں سمیٹتا چلا جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے خود فرمایا تھا:
’’عملی طور پر صرف مولوی محمد یعقوب صاحب ہی اس وقت کام کر رہے ہیں جن کو خداتعالیٰ نے قدرتی طور پرزود نویسی کا ملکہ عطا کیا ہوا ہے اور جو اکثر خطبات اور ڈائریاں وغیرہ صحیح لکھتے ہیں۔ … ان کے لکھے ہوئے مضمون کے متعلق میرا ذہن یہ تو تسلیم کر سکتا تھا کہ کسی بات کے بیان کرنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ مگر میرا ذہن یہ تسلیم نہیں کرسکتا تھا کہ انہوں نے کسی بات کو غلط طور پرتحریر کیا ہے‘‘۔
مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر سالہا سال تک گھنٹوں حضورؓ کے قدموں میں بیٹھ کر تفسیر نویسی کا کام کرتے رہے ہیں۔ جب حضور تفسیر لکھواتے تھے تو تیزی سے بولتے چلے جاتے تھے اور مولانا صاحب اسی تیزی سے اتنے شکستہ خط میں لکھتے تھے کہ لکھنے والے کے سوائے کوئی اسے پڑھ نہیں سکتا تھا۔ بعد میں گھر پر یا دفتر میں آکر اسے صاف خط میں لکھتے تھے۔ آج تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر کی صورت میں علم و معرفت کے جو خزانے موجود ہیں اورجن سے مقام مصلح موعود کی تعیین ہوتی ہے۔ یہ وہی خزانے ہیں جنہیں حضرت مصلح موعود کی زبان فیض ترجمان نے فرمایا اور مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر کے قلم نے کمال جانفشانی اور محنت اور اخلاص سے محفوظ کیا۔
بعض امور سے مولانا محمد یعقوب صاحب کی خدمات عظیمہ کا صحیح تصور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
(1) سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر اور خطبات کی عام سپیڈ 90,85 الفاظ فی منٹ رہی ہے۔ لیکن جب مجلس علم و عرفان میں تقریر فرماتے تو 100الفاظ فی منٹ تک کی رفتار سے بھی تقریر فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات تو یہ رفتار 120 الفاظ فی منٹ تک بھی ہو جاتی تھی۔ اس رفتار میںتقریروں کا قلمبند کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔
(2) حضورؓ کی ایک گھنٹہ کی تقریر الفضل کے آٹھ صفحات پر حاوی ہوتی تھی۔ یعنی جلسہ سالانہ کے ایام میں جو علمی تقاریر حضورؓ فرماتے رہے ہیں اور جو عموماً سات گھنٹوں کی ہوا کرتی تھیں وہ الفضل کے 56 صفحات کی ہوتی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا صاحب کے جسم کی کتنی قوّت ان پر صرف ہوئی ہوگی۔
(3) یوں تو شعبہ زودنویسی میں کئی کارکن آتے اور جاتے رہے۔ مگر مستقل طور پر اس محکمہ میں صرف مولانا موصوف نے ہی کام کیا ہے۔ چونکہ محنت طلب کام ہوتا تھا اس لئے اکثر زودنویس کام سے گھبرا کر چلے جاتے تھے۔ عام طور پر مجلس علم و عرفان کی روزانہ ڈائری فُل سکیپ کے قریباً چالیس صفحات پر حاوی ہوتی تھی یعنی الفضل کے سات یا آٹھ صفحات کی ہوتی تھی۔ پہلے تو مجلس کے اندر شکستہ خط میں ڈائری لکھنا اور پھر گھر آکر اسی وقت اسے صاف کرنایعنی روزانہ 80 صفحات تحریر کرنا۔ یہ مولانا صاحب کا دل گردہ ہی تھا کہ انہوں نے بڑی استقامت کے ساتھ اس عہد وفا کو نبھایا اور رہتی دنیا تک دعاؤں کے مستحق بن گئے۔
(4) آپ اپنے ماتحت زُودنویسوں کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آیا کرتے تھے۔ نئے آنے والوں کو بڑی شفقت کے ساتھ زُودنویسی کے بعض خاص گُر بتایا کرتے تھے اور اُس کے مرتب کردہ کام پر نظر ثانی کرتے وقت اصلاح طلب مقامات کے بارہ میں سمجھایا کرتے تھے۔
(5) یوں تو زودنویسی کے لئے اردو شارٹ ہینڈ بھی ایجاد ہوچکا ہے۔ لیکن یہ اس شعبہ میں کام نہیں دیتا۔ اس کے مقابل پر مولانا محمد یعقوب صاحب نے جو فن ایجاد کیا تھا وہ شارٹ ہینڈ کے بالکل برعکس تھا۔ ’’لانگ ہینڈ‘‘ یعنی الفاظ کو شکستہ خط میں اس کی پوری شکل میں لکھا جاتا تھا اور اس فن میں مولانا کو ہی مہارت تھی کہ وہ ستر فیصد الفاظ تحریر کرلیا کرتے تھے۔ کا، کو، کے، سا، سے وغیرہ الفاظ چھوڑتے جاتے تھے جنہیں صاف کرتے وقت پُرکرلیتے تھے اور یہی وہ فن تھا جو وہ نوآزمودہ زودنویسوں کو تھوڑی سی دیر میں سمجھا دیا کرتے تھے۔ لیکن کوئی بھی زُودنویس اس رفتار کو نہ پہنچ سکا جو مولانا موصوف کی تھی یعنی ستر فیصد۔
(6) ایک گھنٹہ کی تقریر یا خطبہ کو صاف کرنے کے لئے آٹھ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اس شرط کے ساتھ کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر اسے صاف کرلیا جائے جبکہ ساری تقریر زُودنویس کے ذہن میں ہو۔ ورنہ زیادہ وقت گزر جانے پر وہ تقریر ذہن سے اتر جائے گی اور اپنا لکھا ہوا بھی پڑھنا بھی دشوار ہو جائے گا۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا محمد یعقوب صاحب جنہوں نے حضورؓ کے ہزاروں خطبات جمعہ اور خطبات نکاح اور تقاریر اور مجلس علم و عرفان کی ڈائریاں اور مختلف تقاریر قلمبند کیں، انہوں نے کس قدر زیادہ محنت کی ہوگی !۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھ کر قلم سے لکھ لینا بھلا کونسا مشکل کام ہے۔ لیکن درحقیقت یہ آسان کام نہیں ہے۔ اس کا اثر جہاں دوسرے اعصاب پر پڑتا ہے وہاں کمرخاص طور پرمتاثر ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مولانا صاحب کی کمر مسلسل اور بہت زیادہ محنت کے کام کی وجہ سے مستقل طور پر ایک طرف جھکی ہوئی تھی۔ یہ ان کی نشست تھی جو منجمد ہو کر ایک سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ میں قربان جاؤں اس جھکی ہوئی کمر پرجس نے جماعت کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کے علم و عرفان کا ایک بے حد قیمتی ذخیرہ محفوظ کر دیا جس سے رہتی دنیا تک روحانیت کے پیاسے اپنی تشنگی کو بجھاتے رہیں گے۔
مولانا مرحوم کو قرآن، حدیث اور فقہ کے علوم پر کافی عبور حاصل تھا اور ان کے حوالجات اس طرح یاد تھے کہ وہ ایک چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا تھے۔ میرے جیسے کم علم اور کم تجربہ زودنویس جب خطبات و تقاریر نوٹ کرتے تھے تو جلدی میں لکھنے کی وجہ سے اور پھر رفتارِ تحریر کم ہونے کے باعث بعض حوالے رہ جاتے تھے جنہیں نظر ثانی کے وقت مولانا موصوف ہی لکھا کرتے تھے۔ وہ طبّ یونانی اور ہومیوپیتھی میں بھی کافی شغف رکھتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ قادیان میں ان سے استعجاباً دریافت کیا کہ آپ ہومیوپیتھی کی اتنی بڑی بڑی کتابیں بھی زیرمطالعہ رکھتے ہیں اور پھر اتنا زیادہ کام بھی کرتے ہیں تو فرمانے لگے کہ ابتداء میں جب مَیں نے زود نویسی شروع کی تو میں نے دیکھا کہ حضور اپنی تقریروں اور خطبات میں بعض دوائیوں کا ذکر بھی فرماتے ہیں جن کے نام مجھے نہیں آتے تھے اور دوسرے لوگوں سے دریافت کرنا پڑتا ہے لہٰذا میں نے علم طبّ کی طرف توجہ کی۔ گویا یہ طلب علم کے علاوہ ان کی غیرت کا تقاضا بھی تھا جو انہوں نے پورا کیا۔
شارٹ ہینڈ لکھنے والوں کو اتنی لمبی اور علمی تقریریں لکھنے کی پریکٹس نہیں دی جاتی۔ وہ عام طور پرلیڈروں کی تقریریں یا لکھائے ہوئے مسودات لکھتے ہیں جن کی رفتار بہت کم ہوتی ہے اور تقریریں تو صرف جستہ جستہ مقامات سے ہی محفوظ کی جاتی ہیں۔ لیکن حضورؓ کے خطبات کا ایک ایک لفظ محفوظ کرنا ہوتا تھا اور گھنٹوں کے حساب سے تقریریں ہوا کرتی تھیں۔ لہٰذا یہاں شارٹ ہینڈ والے نہیں چل سکتے تھے بلکہ لانگ ہینڈ ہی کام دے سکتا تھا اور اس فن کی ایجاد اور اسے اس کی معراج تک پہنچانے کا سہرا مولانا مرحوم کے سر ہی تھا۔
مولانا مرحوم بڑی ہی شگفتہ اور باغ و بہار طبیعت رکھتے تھے اور انہیں چٹکلے اور لطیفے یاد ہی نہ تھے بلکہ انہیں بیان کرنے کا عمدہ سلیقہ تھا۔ گو وہ اپنے فرائض کی مصروفیات کے باعث عام طور پرمجالس سے مجتنب رہتے تھے لیکن اپنے مخصوص احباب کے حلقہ میں اپنی شگفتگی طبع کے باعث وہ مقبول و محبوب تھے۔
مولانا مرحوم اپنے فن میں یکتائے روزگار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس فن میں اتنی دستگاہ بخشی تھی جس میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا اور وہ اکیلے دس آدمی کے برابر کام کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے قلمی جہاد کے زمانہ میں ایسے ہی لوگوں کی ضرورت تھی۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جیسے لوگ جو زودنویسی کے فن میں مشّاق تھے اور حضورؑ کی سیر کے وقت کی ڈائری بھی چلتے چلتے قلمبند کرلیا کرتے تھے۔ حالانکہ چلتے چلتے لکھنا بہت ہی مشکل امر ہے۔ پس قلمی جہاد کے اپنے زمانہ میں محترم مولانا محمد یعقوب صاحب نے بڑی عمدگی اور بڑے ہی سلیقہ کے ساتھ اپنے وقت کی ذمہ داری ادا کی۔ اوربظاہر ایک بیمار اور منحنی سا انسان سلسلہ عالیہ احمدیہ کی غیرمعمولی خدمت کرگیا۔