محترم مولانا منیر الدین احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15, 17 اور 19 اگست 2009ء میں محترم مولانا منیر الدین احمد صاحب مربی سلسلہ کی خودنوشت سوانح عمری شامل اشاعت ہے۔
محترم منیرالدین احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد حضرت میاں قمرالدین صاحبؓ نے اپنے ماموں حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ کی تحریک پر 1902ء میں نوجوانی میں بیعت کرلی۔ اخبار الحکم میں آپؓ کی بیعت کا اعلان درج ہے۔ پھر میرے چچا حضرت قائم دین صاحبؓ بھی احمدی ہوگئے۔
ہم گوجرانوالہ شہر کے رہنے والے تھے۔ مگر والد صاحب موضع بکلوہ چھاؤنی ضلع گورداسپور میں آکر جنرل سٹور اور شوز کی دکان کرنے لگے۔ یہیں 1926ء میں میری پیدائش ہوئی۔ 1937ء میں تجارتی حالات خراب ہونے پر والد صاحب نے قادیان آکر جوتوں کا کاروبار شروع کیا۔ امرتسر جا کر سامان لاتے تھے۔ 1938ء میں ایک دفعہ امرتسر سامان لینے گئے مگر واپس نہ آئے۔ بہت تلاش کی گئی مگر ان کا کوئی پتہ نہ چلا۔
میرے بڑے بھائی صدرالدین کھوکھر صاحب کو ابتدائی عمرمیں گوجرانوالہ میں مجلس خدام الاحمدیہ اور جماعتی کاموں میں خدمت کا خاص موقع ملتا رہا۔ پھر کراچی میں لمبا عرصہ بطور سیکرٹری رشتہ ناطہ خدمت کی۔ نیز کراچی گیسٹ ہاؤس کی ڈیوٹی بھی ادا کرتے رہے۔ خدمت خلق کے کاموں کو مختلف رنگ میں بجا لاتے تھے۔ بیوگان، یتامیٰ، طلباء و غرباء کا خاص خیال رکھتے۔ ہر سال مجلس شوریٰ میں نمائندہ کراچی کے طور پر شامل ہوتے۔ جلسہ سالانہ UK کے موقع پر چائے کے سٹال پر کئی سال ڈیوٹی دینے کا شرف بھی آپ کو حاصل رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک جلسہ پر آپ کی اس خدمت کا نمایاں رنگ میں ذکر فرمایا۔ جرمنی اور کینیڈا میںبھی جلسوں پر ٹی سٹال کی ڈیوٹی دینے کا موقع ملا۔ 1947ء کے پُرآشوب حالات میں حفاظت مرکز قادیان کی توفیق بھی پائی۔ مَیں بھی اس موقع پر خدمت کے لئے قادیان گیا تھا۔
محترم والد صاحب کے 1938ء میں ہم سے جدا ہونے کے بعدہم تین بہن بھائیوںاور والدہ صاحبہ کی ذمہ داری دونوں بڑے بھائیوں عبدالرحیم صاحب اور صدرالدین صاحب پر آپڑی جو انہوں نے بخوبی ادا کی۔ میرے والد کی مجھے وقف کرنے کی خواہش تھی چنانچہ مجھے B.A. کرواکر جامعہ احمدیہ میں داخل کروادیا گیا۔ بعد میں مَیں نے M.A. بھی کرلیا۔ اسی دوران میری شادی ہوئی لیکن ایک سال بعد میری اہلیہ کی وفات ہوگئی۔ پھر جامعہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1959ء میں میری شادی مکرم جی۔ ایم۔ صادق صاحب (سابق افسر امانت تحریک جدید ربوہ) کی بیٹی بشریٰ بیگم سے ہوگئی۔
شادی کے ایک سال بعد مجھے مشرقی افریقہ کے ملک یوگنڈا جانے کا ارشاد ہوا۔ تو اپنی بیوی اور نومولود بیٹی کو گوجرانوالہ میں چھوڑ کر کراچی سے بحری سفر پر روانہ ہوا اور 9 دن میں ممباسہ پہنچا۔ پھر نیروبی میں رہائش کے لئے مسجد کے قریب ایک احمدی دوست کے مکان میں ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا۔ نیروبی مشن سے دو اخبار چھپتے تھے۔ ’’ایسٹ افریقن ٹائمز‘‘ انگریزی میں اور Mapenzi Ya Mungu سواحیلی زبان میں۔ ان اخبارات کی اشاعت اور ترسیل کا کام کرنا ہوتا تھا۔ خاکسار انگریزی اخبار کی پروف ریڈنگ کرتا۔ اس کی ایڈیٹنگ مکرم عبدالسلام صاحب بھٹی کرتے تھے جو کہ نیروبی کے ایک سکول کے پرنسپل تھے اور جماعت نیروبی کے صدر بھی تھے۔ سواحیلی زبان میں مختلف موضوعات پر کتب تیار کی گئی تھیں۔ قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ بھی چھپ چکا تھا۔ اس کی بھی بڑی مانگ رہتی تھی۔ کینیا کے سیاسی لیڈر مسٹر جوموکینیاٹا جب قید سے رہا ہوئے تو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ان کو مبارکباد دینے گئے اور قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ بھی بطور تحفہ پیش کیا۔ اس پر مسٹر کینیاٹا کہنے لگے کہ یہ قرآن کریم تو پہلے ہی میرے پاس موجود ہے۔ پھر اندر جا کر اپنی کاپی اٹھا لائے اور بتایا کہ یہ مجھے جیل میں ڈاکٹر نذیر احمد (ابن حضرت سردار عبدالرحمن صاحبؓ سابق مہر سنگھ) نے دی تھی اور انہوں نے سورۃ فاتحہ زبانی یاد کروادی تھی۔ میں اس کا مطالعہ کرتا ہوں اور اس سے برکت حاصل کرتا ہوں۔
بعد ازاں خاکسار ممباسہ بھجوادیا گیا۔ یہاں تین چار پاکستانی خاندان تھے۔ دو تین عرب نوجوان تھے جن کے ساتھ گردونواح میں جاکر دعوت الی اللہ کا موقعہ ملتا رہا۔ ایک نابینا عرب نوجوان بھی احمدی ہوئے۔ 1963ء میں تین سال مکمل ہونے پر خاکسار مرکز آگیا اور ربوہ میں اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ رہائش پذیر ہوا۔ ان دنوں جماعت کا بجٹ کم ہوتا تھا اور یہ دستور تھا کہ جو مربی تین سال اکیلا رہ کر باہر سے آئے وہ تین سال مرکز میں اہل و عیال کے ساتھ رہے۔ اگر اسے تین سال سے پہلے بھجوانا مقصود ہو تو فیملی بھی ساتھ بھجوائی جائے۔ باہر سے مربیان بھجوانے کے مطالبات آرہے تھے۔ مربیان کی تعداد کم تھی۔ مجھے واپس آئے ایک سال ہو گیا تو خیال آیا کہ ممالک بیرون میں مربیان کی ضرورت ہے کیوں نہ تین سال سے پہلے ہی جا کر میدان عمل میں خدمت کی جائے۔ بیوی نے بھی میری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اجازت دیدی۔ چنانچہ میںنے مکرم وکیل التبشیر صاحب کو لکھ دیا کہ میں تین سال مکمل ہونے سے پہلے بھی باہر جانے کو تیار ہوں بے شک اکیلے ہی خدمت کے لئے بھجوا دیں۔
اس دوران حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ خلیفہ ثالث منتخب ہوئے۔ انتخاب میں خاکسار کو بھی حصہ لینے کا موقعہ ملا۔ بعد میں مبلغین کا جائزہ لینے پر میرے متعلق حضورؒ نے فرمایا کہ مع فیملی ان کو کینیا بھجوا دیا جائے۔ چنانچہ بذریعہ بحری جہاز کینیا پہنچا۔
روانگی سے پہلے حضورؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو حضورؒ نے میری بیوی سے فرمایا کہ تم بھی زندگی وقف کر دو، چنانچہ اُس نے بھی وقف زندگی کا فارم پُر کردیا۔ حضورؒ نے یہ بھی دریافت فرمایا کہ بچے کتنے ہیں؟ عرض کیا: دو بیٹیاں ہیں۔ حضورؒ نے فرمایا: اچھا اللہ تعالیٰ افریقہ میں بیٹا دے گا۔ چنانچہ کینیا میں اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا۔ جس کو ہم نے حضورؒ کی خدمت میں بطور وقف پیش کر دیا۔ حضور نے منظور فرمایا اور ظہیر احمد نام عطا کیا۔ (حال مبلغ جنوبی افریقہ)۔
خاکسار کو پہلے کسموں شہر میں اور بعدازاں ممباسہ میں خدمت کی توفیق ملی۔کسموں شہر کے قیام کے دوران ارد گرد کے علاقہ جات میں جا کر دعوت اللہ کا موقعہ ملتا رہا۔ دو لوکل معلمین تھے۔ پہلے بس پر یا پیدل ہی سفر کیا جاتا تھا۔ پھر موٹر سائیکل مل گیا۔ یہاں ایک جگہ کے امام مسجد سے رابطہ ہوا تو انہوں نے لٹریچر کا مطالعہ کرکے احمدیت کو سچا مان لیالیکن کہا کہ بیعت اکیلا نہیں کروں گا۔ چنانچہ وہاں جلسہ کیا گیا، تقریر کی، سوال و جواب ہوئے۔ اس موقعہ پر امام مسجد کے ہمراہ ساٹھ افراد نے بیعت کی۔ اس کے علاوہ بھی کئی مقامات پر سینکڑوں بیعتیں ہوئیں اور تین مساجد بھی تعمیر ہوئیں۔
1972ء میں مرکز کے ارشاد پر ربوہ آگیا۔ کچھ عرصہ دفاتر میں کام کرنے کے بعد سویڈن جانے کا ارشاد ہوا۔ (قبل ازیں 27نومبر 2009ء کے شمارہ کے اسی کالم میں سویڈن اور ناروے میں مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے محترم مولانا صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہوچکا ہے۔ اُس میں بیان شدہ امور یہاں مکرّر بیان نہیں کئے جارہے )۔
سویڈن میں ایک اہم تقریب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبیل انعام ملنے سے متعلق تھی۔ 9؍دسمبر 1979ء کی تقریب کے لئے مجھے بھی دعوت نامہ آیا۔ مگر اس تقریب میں شامل ہونے والوں کو ایک خاص قسم کا سوٹ پہننا ہوتا ہے۔ ایک دن کے لئے یہ سوٹ بنوانا اسراف معلوم ہوا۔ اس لئے میںنے اس تقریب میں جانے کا خیال ترک کر دیا۔ مگر احباب جماعت کا اصرار تھا کہ یہ خاص تقریب ہے اس میں ضرور جانا چاہئے۔ پتہ لگا کہ یہ سوٹ کرایہ پربھی مل جاتے ہیں مگر میرے سائز کا کوئی سوٹ نہ مل سکا۔ اسی دوران اخبار میں پڑھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی درخواست پر نوبیل کمیٹی نے اُنہیں اپنا قومی لباس پہن کر تقریب میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر مَیں نے بھی اچکن پہن کر تقریب میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور سٹاک ہوم شہر چلا آیا۔ اصل تقریب سے پہلے ڈاکٹر صاحب کے لئے ایک ٹی پارٹی کا اہتمام کیا گیاتھا۔ اس میں بھی شامل ہوا۔ اصل تقریب کے دو حصے تھے ایک تقسیم انعامات اور دوسرا رات کا کھانا۔ تقسیم انعامات والے ہال میں ایک سٹیج پر ایک طرف انعام لینے والے بیٹھے تھے جن میں نمایاں شخصیت پاکستانی لباس میں ملبوس ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی تھی۔ دوسری طرف وہ سکالرز بیٹھے تھے جن کو پہلے نوبیل انعام مل چکا تھا۔ درمیان میں شاہ سویڈن بطور مہمان خصوصی بیٹھے تھے۔ ہال میں علاوہ ڈاکٹر صاحب کے دو اچکن والے اَور تھے ایک میں اور ایک پاکستانی سفیر۔ سٹیج پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ بتایا گیا کہ یہ پھول ہالینڈ سے اس تقریب کے لئے منگوائے جاتے ہیں۔
سیکرٹری نوبیل کمیٹی باری باری انعام یافتہ کا نام لیتا جو کہ ایک دائرہ میں آکر کھڑا ہو جاتا جس میں N لکھا ہوا تھا۔ انعام یافتہ کی تحقیقی اور علمی خدمات کامختصر تذکرہ کرکے سیکرٹری بادشاہ سے درخواست کرتا اور وہ اُٹھ کر انعامی میڈل عطا کرتا۔
کھانے کا انتظام دوسرے ہال میں تھا۔ انعام لینے والوں کے لئے بادشاہ کے ساتھ الگ جگہ تھی۔ بادشاہ اور ملکہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بیٹھے۔ اُن کے رواج کے مطابق بادشاہ کھاتے ہوئے بات نہیں کرتا مگر ملکہ اس دوران ڈاکٹر صاحب سے متواتر باتیں کرتی رہیں۔ مَیں کچھ لٹریچر بھی ساتھ لے گیا تھا جو مختلف لوگوں کو دیا۔ بادشاہ کے پاس جاکر بھی اپنا تعارف کرایا اور کتاب Essence of Islam پیش کی جو اُنہوں نے اٹھ کر وصول کی اور شکریہ ادا کیا۔
کھانے کے بعد تین تقاریر ہوئیں جن میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی تقریر بھی شامل تھی۔ آپ نے سورۃ الملک کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرکے ترجمہ اور تفسیر بیان کی اور کہا کہ میری تحقیق کا ایک ذریعہ قرآن کریم ہے۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ اس تقریب میں قرآن پڑھا گیا۔
بعد ازاں ڈاکٹر صاحب گوٹن برگ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز عشاء ادا کی اور احباب کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور مسجد کے لئے عطیہ بھی عطا فرمایا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی اجازت سے مجھے مسجد بشارت سپین کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا۔ اس کے بعد واپس پاکستان بلالیا گیا اور دارالذکر لاہور میں تعینات ہوا۔ انتخاب خلافت میں حصہ لینے کا بھی موقع ملا اور 1983ء میں انچارج شعبہ رشتہ ناطہ صدر انجمن ربوہ مقرر ہوا۔ 1987ء میں جہلم میں مربی تعینات ہوا۔ یہاں دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں ایک شخص نے بیعت کرلی لیکن اُس کی بیوی نے یہ شرط رکھی کہ اگر اللہ تعالیٰ لڑکا دے گا تو وہ بیعت کرلے گی۔ چنانچہ دعا کی گئی اور حضورؒ کی خدمت میں بھی دعا کے لئے لکھا گیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا کیا اور اُس نے بیعت کرلی۔ 1991ء میں مرکز بلالیا گیا اور دس سال تک دفتر میں خدمت بجالایا۔
2005ء میں میری اہلیہ بشریٰ منیر کی وفات ہوگئی۔ (مرحومہ کا تفصیلی ذکرخیر 2مارچ 2007ء کے شمارہ کے اسی کالم میں تفصیل سے کیا جاچکا ہے)۔
بعد از ریٹائرمنٹ مَیں نے لندن آکر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تو حضور انور نے جرمنی جاکر رشتہ ناطہ کا کام کرنے کا ارشاد فرمایا۔ حضور انور کی ہدایت پر مکرم امیر صاحب جرمنی نے مجھے نیشنل سیکرٹری رشتہ ناطہ مقررکررکھا ہے۔
(نوٹ از مرتّب: محترم مولانا منیرالدین احمد صاحب کی وفات جرمنی میں ہی 10؍جنوری 2010ء کو ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں کی گئی۔)