محترم مولانا ناصرالدین عبداللہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ 7؍اکتوبر 1998ء میں مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب رقمطراز ہیں کہ میں اکثر بنارس جایا کرتا تھا جہاں کی ایک مسجد کے حجرے میں مولانا ناصرالدین عبداللہ صاحب مقیم تھے اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ وہ بنارس کی جماعت کیلئے مربی کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ دبلے پتلے چھریرے بدن کے ایک نحیف الجثّہ نوجوان تھے جنہیں حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر یہاں بھجوایا گیا تھا۔ پھر انہوں نے سنسکرت کا اعلیٰ امتحان ’’کاویدیہ تیرتھ‘‘ پاس کیا اور کلکتہ یونیورسٹی میں اول آئے۔ اُس وقت سنسکرت کالج بنارس کے پرنسپل ردردیو شاستری تھے جن کا میلان پہلے ہی سے احمدیت کی طرف تھا۔ چنانچہ مولانا صاحب کو غیرمتوقع طور پر سنسکرت کالج میں داخلہ مل گیا اور 35 روپے ماہوار وظیفہ بھی جاری ہوگیا۔ شاستری صاحب بعد ازاں بشرح صدر مسلمان ہوکر اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ قادیان آگئے تھے۔
مضمون نگار مزید بیان کرتے ہیں کہ مولانا صاحب ایسے ہونہار طالبعلم ثابت ہوئے کہ ہندو طلبہ بھی آپ کا احترام کرتے تھے۔ میں اکثر اُن کے ساتھ ہندوؤں کے محلوں میں جاتا تو لوگ دونوں ہاتھ بلند کرکے ’’مہاراج پالاگن‘‘ کا نعرہ بلند کرتے۔ مولانا صاحب نے نہ صرف ویدوں کو ہی سبقاً سبقاً پڑھا تھا بلکہ ویدوں کی ڈکشنری بھی (جو ویدوں کی زبان سے بھی مشکل مانی جاتی ہے) مطالعہ کی تھی۔ اُن کی کتاب ’’آسمانی پرکاش‘‘ میں، جس کا پہلا نام ’حق پرکاش‘ رکھا گیا تھا، ستیارتھ پرکاش میں دیانند سرسوتی کی طرف سے اسلام اور آنحضرت ﷺ پر کئے گئے تمام اعتراضات کا جواب موجود تھا۔
مولانا ناصرالدین صاحب ایک بار بہت بیمار ہوگئے۔ آپ کو دودھ ہضم نہیں ہوتا تھا بلکہ بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے مضر تھا۔ ایک رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ہاتھ میں دودھ کا گلاس لئے ہوئے تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں لو یہ دودھ پی لو۔ آپ نے عرض کی دودھ تو مجھے ہضم نہیں ہوتا۔ حضورؓ نے فرمایا اب ہضم ہو جائے گا۔ آپ نے خواب میں ہی گلاس لے کر دودھ پی لیا۔ صبح اٹھے تو دودھ کی طلب ہوئی۔ نرس سے دودھ لانے کو کہا تو وہ ڈاکٹر کو بلا لائی۔ آپ نے ڈاکٹر کو اپنی خواب سناکر کہا کہ میں اپنی ذمہ داری پر دودھ پیتا ہوں۔ آپ کے اصرار پر ڈاکٹر نے اجازت دے دی اور مولوی صاحب نے پورا گلاس پی لیا۔ پھر دودھ آپ کو ہضم ہونے لگا اور چند روز میں آپ صحتیاب ہوگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں