محترم مولانا نور محمد نسیم سیفی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍جون 1999ء میں سابق ایڈیٹر الفضل محترم مولانا نور محمد نسیم سیفی صاحب کا ذکر خیر مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار کو 1984ء کے بدنام زمانہ آرڈیننس کے بعد سے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں محترم سیفی صاحب کی معیت حاصل رہی۔ پہلے آپ ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ کے ایڈیٹر تھے لیکن جب آپ اخبار ’’الفضل‘‘ کے ایڈیٹر بنے تو مقدمات کی بھرمار ہوگئی چنانچہ ایک دفعہ آپ کی عمر کے پیش نظر سوچا گیا کہ اخبار پر ایڈیٹر کے طور پر کسی اَور کا نام درج کردیا جایا کرے۔ اس پر آپ نے بے خوف ہوکر کہا کہ مَیں ان مشکلات سے ہرگز گھبرانے والا نہیں اور مجھے کمزور نہ سمجھا جائے۔ اور وقت نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی بہت ثابت قدم تھے۔
جب آپ کو آپ کے دیگر چار ساتھیوں کے ہمراہ چنیوٹ جیل میں رکھا گیا تو بالاتفاق سب نے اسیری کے دوران آپ کو امیر اپنا مقرر کرلیا۔ ایک موقعہ پر پچیس تیس قیدیوں نے آپ کے پیچھے نماز ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ کی ذہانت نے فوراً بھانپ لیا کہ مخالف عنصر اس بات کو آپ کے خلاف بھی استعمال کر سکتا ہے اور فضا میں تکدر پیدا ہو سکتا ہے چنانچہ آپ نے بڑی نرمی کے ساتھ ان کو سمجھایا اور پھر اُنہی میں سے ایک نوجوان کو اُن کا امام مقرر کرکے اُن کے لئے علیحدہ باجماعت نماز کا انتظام کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز عشاء کے بعد ایک محفل لگانی شروع کی جس میں خوش آواز نعتیں سناتے اور پھر احمدی آنحضور کی سیرۃ کے واقعات بیان کرتے اور احمدیت سے متعلق دوسروں کی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کے نتیجہ میں انہوں نے احمدیوں کی بہت خدمت کی اور یہ محترم سیفی صاحب کی مدبرانہ قیادت کا نتیجہ تھا۔
چنیوٹ کی اسیری کے دوران محترم سیفی صاحب کے شعروشاعری کے ملکہ کو بھی خوب جلا ملی۔ آپ کی کتاب ’’قطعات کی بہار‘‘ کا تعلق اسی زمانہ سے ہے۔ حضورانور نے یہ قطعات دیکھ کر فرمایا: ’’محترم سیفی صاحب نے تو جیل میں بھی اپنی شاعرانہ صلاحیتوں سے قوم کو گرمایا اور داد وصول کی ہے۔ ان کے لئے بھی فکرمند تھا کیونکہ اس عمر میں صعوبتیں اٹھانا سہل امر نہیں۔‘‘