محترم مولوی عبدالوہاب حجازی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍نومبر 2004ء میں مکرم سید سعیدالحسن صاحب اپنے دادا محترم مولوی عبدالوہاب حجازی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 1887ء میں امرتسر کے ایک شیعہ گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی والدین طاعون سے وفات پاگئے تو آپ اپنی ایک بہن کے پاس آگئے جن کے خاوند فوج میں صوبیدار تھے۔ بہن نے آپ کا بہت خیال رکھا لیکن تعلیم و تربیت اہل تشیع کے انداز میں ہونے لگی۔ اُس محلہ میں اہلحدیث کی ایک مسجد تھی جس کے امام کی تلاوت سے آپ بہت متأثر تھے اور آہستہ آہستہ اہلحدیث کے مسلک کی طرف مائل ہوگئے۔ جب بہن کو علم ہوا تو آپ پر سختی شروع ہوئی لیکن آپ نے گھر چھوڑ دیا اور مدرسہ اہلحدیث بھینی سے قرآن و حدیث کی سند لی۔ پھر مدرسہ غزنویہ امرتسر سے دور حدیث مکمل کیا اور دہلی سے مولوی فاضل کی سند لی اور سنسکرت اور گورمکھی پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کئی علوم میں اضافہ کیا۔ پھر امرتسر میں ایک مسجد کے خطیب اور منسلکہ مدرسہ کے مہتمم مقرر ہوئے۔ جلد ہی علمائے اہلحدیث میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیا۔ پاکستان بننے کے بعد لائلپور (فیصل آباد) آگئے اور نشاط ملز میں خطیب مقرر ہوئے۔
آپ صاحبِ کشف و رؤیا تھے۔ ایک بار کسی احمدی نے آپ سے اختلافی مسائل میں بحث کی اور آپ کے جواب نہ دینے پر حضرت مسیح موعودؑ کی اس تعلیم کا ذکر کیا کہ صداقت مسیح موعودؑ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے راہنمائی حاصل کریں۔ چنانچہ آپ نے دعا شروع کردی ۔ ہفتہ عشرہ میں آپ نے تین خواب دیکھے۔ دو خوابوں میں کسی بزرگ نے آپ کو قبول احمدیت کی تلقین کی اور بتایا کہ آپ کی عمر تھوڑی ہے۔ لیکن تیسری خواب میں قبولِ احمدیت کی بات نہ ماننے پر آپ کو دہشت ناک نظارہ دکھایا گیا۔ چنانچہ آپ اگلی صبح احمدیہ مسجد فیصل آباد پہنچ گئے۔ وہاں حضرت مصلح موعودؓ کی تصویر دیکھ کر آپ نے بتایا کہ خواب میں یہی بزرگ آئے تھے۔ کچھ دن بعد آپ کی اہلیہ نے بھی بیعت کرلی۔
قبول احمدیت کے بعد اگلے روز آپ نے اپنی مسجد کے سب نمازیوں کو اپنے قبول احمدیت سے آگاہ کیا اور انہیں دعوت الی اللہ کی۔ لیکن اس جرم میں آپ کو خطابت سے علیحدہ کردیا گیا اور مکان سے بھی بے دخل کردیئے گئے۔ چنانچہ آپ شہر سے دُور اپنی زمین پر ایک کچا مکان بناکر اُس میں رہنے لگے۔ وہاں آپ کا معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ کو پانی دو فرلانگ دُور نہر سے لانا پڑتا۔ یہ وہی علاقہ تھا جس نے آپ کے ذریعہ اہلحدیث مسلک کو قبول کرتے ہوئے سنی عقائد چھوڑ دیئے تھے لیکن اب انہی کے بچے بڑوں کے کہنے پر آپ پر پتھر برساتے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ انہی تکلیف دہ حالات کے دوران میرا بڑا بھائی جو آپ کا اکلوتا پوتا تھا، بیمار ہوکر فوت ہوگیا تو سارے علاقہ میں خوشی منائی گئی کہ اب آپ کی نسل منقطع ہوگئی ہے۔ آپ کو اس بات کا علم ہوا تو بڑے درد سے اللہ کے حضور لمبی دعا کی اور پھر اپنی بہو کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بیٹی غم نہ کر، تجھے اللہ سات بیٹے دے گا۔ چنانچہ آج ہم سات بھائی احمدیت کی صداقت کے گواہ ہیں۔ اگرچہ آپ اپنی خوابوں میں بتائی ہوئی بات کے مطابق قبول احمدیت کے صرف تین سال بعد وفات پاگئے۔
کچھ عرصہ بعد تکلیف دہ حالات کے دوران ہی بعض افراد یہ معلوم کرنے کے لئے آپ سے ملے کہ آخر آپ کو کس چیز نے احمدیت کی طرف مائل کیا۔ آپ نے اُن کو دعوت الی اللہ کی جس کے نتیجہ میں جلد ہی تیرہ لوگ احمدیت کی آغوش میں آگئے۔
آپ کو خلافت سے بے پناہ عقیدت تھی۔ آپ اردو اور پنجابی میں اشعار بھی کہتے تھے جو 1974ء کے فسادات کے دوران گھر نذرآتِش ہونے کی وجہ سے ضائع ہوگیا۔