محترم مولوی فضل کریم صاحب تبسم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍اکتوبر 2008ء میں مکرم محمد احمد فہیم صاحب کے قلم سے محترم مولوی فضل کریم صاحب تبسم کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مکرم مولوی فضل کریم صاحب تبسم کا تعلق راجوری (انڈیا کشمیر) سے تھا۔ آپ کو کئی سال تک سیرالیون میں بطور مربی سلسلہ خدمات بجا لانے کا موقع ملا جہاں Yellow Fever کا اٹیک ہوا جو ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ کئی ماہ تک آپ ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ سارے جسم کے خون کوتبدیل کیا گیا جس سے صحت یاب تو ہو گئے۔ لیکن آپ کی قوت سماعت اس سے متاثر ہو گئی اسی طرح زبان میں بھی لکنت آ گئی کہ بولتے وقت بات کی واضح سمجھ نہ آتی تھی اور بات کو بغور سننا پڑتا تھا۔ اس بیماری کے بعد زبانی دعوت الی اللہ تو نہیں کر سکتے تھے لیکن تادم آخر نظارت اشاعت میں خدمات کی توفیق پائی اور تحقیق و مسودات کی پروف ریڈنگ و حوالہ جات کی تلاش عمیق نظر اور تندہی سے کرتے۔
تحقیقی کام کی وجہ سے آپ کو حوالہ جات کی تخریج و تکمیل و تلاش میں ملکہ تھا۔ کوئی حوالہ دریافت کیا جاتا تو چند لمحوں میں بتا دیتے کہ فلاں کتاب دیکھ لو۔ دوران کام پوری توجہ سے کام میں مشغول رہتے لیکن جب تھک جاتے تو تفریح کے طورپر کوئی مزاحیہ یا سبق آموز شعر یا فقرہ لکھ کر کاغذا پنے ساتھ والے کے آگے رکھ دیتے۔
آپ مضبوط کسرتی جسم کے مالک تھے۔ جامعہ کے دَور میں کبڈی کے اچھے کھلاڑی رہے۔ زیادہ تر پیدل یا سائیکل پر ہی چلتے پھرتے نظر آتے۔ ایک دفعہ سیرالیون کا واقعہ سنایا جب دو چوروں نے چندے کی رقم کا تھیلا آپ کے ہاتھ سے چھیننا چاہا تو آپ نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور اُن کو بھاگنا پڑا۔
آپ کا زیادہ تر وقت مسجد میں ہی گزرتا۔ بعض اوقات مسجد میں ہی سو جاتے۔ ایک مرتبہ بتایا کہ میں پنجاب کے کسی گاؤں میں دعوت الی اللہ کے لئے گیا۔ رات مسجد میں ٹھہرا۔ سخت بھوک کی حالت تھی لیکن کسی نے کھانے کو نہ پوچھا۔ اسی حالت میں لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر گزری کہ دروازہ کھٹکا۔ ایک آدمی ہاتھ میں ٹرے لئے کھڑا تھا جس میں تازہ روٹیاں اور گرم گرم گوشت کا سالن تھا، میں نے کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ برتن ایک طرف رکھ دئیے لیکن پھر وہ آدمی نظر نہیں آیا اور نہ ہی برتن لینے آیا۔ تو اس طرح خداتعالیٰ کی طرف سے آپ کی مہمان نوازی کا سامان پیدا ہو گیا۔
آپ کی طبیعت میں سادگی تھی۔ ویسے بھی اہل و عیال سے محروم تھے۔ اس لئے زیادہ وقت باہر ہی گزار دیتے۔ کئی دفعہ بتایا کہ تہجد کے نوافل کے لئے آنکھ کھلی نفل پڑھے اور منہ اندھیرے ہی خیال آیا کہ بہشتی مقبرہ دعا کے لئے چلتے ہیں اسی وقت چل دئیے۔ کئی مرتبہ فضل عمر ہسپتال میں ملاقات ہوئی کہ کبھی کسی مریض کا حال پوچھتے کبھی کسی کارکن سے کھڑے حال احوال پوچھ رہے ہوتے اور کبھی کسی دکاندار سے خیر خیریت پوچھ رہے ہوتے۔ دوسروں کا غم بٹاتے تھے۔ بے غرض طبیعت تھی۔ کبھی روپیہ پیسہ نہ جمع کیا اور نہ لالچ آیا۔ جتنا پاس ہوا خرچ لیا۔ درویشانہ زندگی گزاری۔ کوارٹر کے ہوتے ہوئے بھی لگتا تھا کہ آپ کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ وفات سے ایک دو سال قبل دل کے مریض بن گئے تھے۔ پھر بھی باوجودطبیعت کے خراب ہونے کے حوصلہ بلند رکھتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ ’’ڈاکٹروں کی سمجھ نہیں آتی ساتھ کہتے ہیں خون کم ہے اور بلڈ پریشر چیک کرتے ہیں تو کہتے ہیں زیادہ ہے‘‘ اور پھر خوب ہنسے۔
یہ سادہ دل بزرگ 18مئی2007ء کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں