محترم مکھیا قمرالدین صاحب
محترم منشی قمرالدین مکھیا صاحب قصبہ انچولی ضلع میرٹھ کے ساکن تھے۔ والد کا نام ممتاز علی تھا۔ آپ کے آباؤاجداد سمرقند سے ہجرت کرکے یوپی میں آکر آباد ہوئے اور بالآخر دہلی سے پچاس میل دُور واقع قصبہ انچولی کو مستقل مسکن بنالیا۔ محترم منشی صاحب کے والد آپ کے بچپن میں ہی وفات پاگئے اور آپ کی پرورش چچا نے نہایت محبت سے کی۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓ نے حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ کو دعوت الی اللہ کے لئے انچولی بھیجا تو جلد ہی محترم منشی قمرالدین صاحب نے بھی 1914ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے دَور میں احمدیت قبول کرنے توفیق پالی۔ اس کے بعد مخالفت کا ایک شدید طوفان اٹھا جس نے محبت کرنے والے چچا کو بھی دشمن بنادیا اور اُس نے آپ کو ایک کمرہ میں قید کردیا۔ آپ تین ماہ قید رہے اور پھر چچا نے کسی کے سمجھانے پر اس لئے آپ کو رہا کردیا کہ چچا کی نرینہ اولاد نہیں تھی اور اپنے سہارے کے لئے اُسے کسی کی ضرورت تھی۔ آپ نے بھی چچا کی بہت خدمت کی۔ چچا کی وفات کے بعد آپ کے ایک رشتہ کے نانا نے کمشنر کو درخواست دی کہ اُسے علاقہ کا مکھیا (اعزازی عہدہ جس کی بہت اہمیت تھی) مقرر کردیا جائے کیونکہ متوفی کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے اور دو بھتیجے بھی نیم پاگل ہیں۔ چنانچہ اُسے مکھیا بنادیا گیا۔ لیکن چونکہ وہ احمدیت کا شدید دشمن تھا اس لئے محترم قمرالدین صاحب کو بہت فکر لاحق ہوئی اور آپ نے اس بارہ میں اپیل کی جس پر کمشنر نے رائے شماری کروائی تو چار ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر قمرالدین صاحب مکھیا منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد انچولی میں تربیتی جلسے اور مناظرے کھلے عام آپ کی نگرانی میں ہونے لگے اور دعوت الی اللہ کا دروازہ کھل گیا۔ نمازوں کا مرکز بھی آپ کا ہی گھر تھا۔ کئی بار متعصب دشمنوں نے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور جھوٹے مقدمات بھی قائم کئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپ کو کامیابی عطا فرمائی۔ آپ اپنے علاقہ میں ایک نافع الناس وجود شمار ہوتے تھے۔ آپ نے اپنے علاقہ میں حکومت سے دو پرائمری اور ایک مڈل سکول جاری کروائے۔
اگرچہ آپ کی تعلیم آٹھویں تک تھی لیکن قوت فیصلہ اور سوجھ بوجھ کی صلاحیتیں قدرت نے وافر طور پر ودیعت کررکھی تھیں۔ عام لوگ آپ کی اصابت رائے پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ کے فیصلوں کو قبول کرتے تھے اور بعض جج صاحبان کئی مقدمات میں آپ کو اپنا معاون بناکر اپنی کرسی کے برابر جگہ دیتے اور مقدمہ کی سماعت کے بعد فیصلہ آپ کے مشورہ سے سناتے۔
آپ بہت نڈر تھے۔ ایک بار آپ کو علم ہوا کہ ایک گروہ انچولی پر حملہ آور ہونے کی نیت رکھتا ہے تو آپ تن تنہا ہزاروں دشمنوں کے مجمع میں پہنچ گئے اور معاملہ سلجھاکر واپس آئے۔ انچولی کے ترقیاتی کاموں کے لئے آپ کو سرپنچ بھی مقرر کیا جاتا تھا۔ آپ نے خدمت خلق کے بے شمار کام کروائے جس کی بنا پر آپ کو کئی انعامات اور سندات سے نوازا گیا۔
محترم قمرالدین صاحب نے اسّی برس تک رمضان کے روزے رکھے اور باوجود پیرانہ سالی کے 97 برس تک باجماعت نمازوں کا التزام رکھا۔ آخر وقت تک آپ کی بینائی، شنوائی اور یادداشت پوری طرح قائم رہی۔ اپنے چھوٹے بیٹے صابرالدین صدیقی صاحب کو روسی زبان میں Ph.D. تک تعلیم اس خیال سے دلوائی کہ سلسلہ کی خدمت کی توفیق پائیں۔ بعد ازاں صابر صاحب کو لندن میں حضور انور ایدہ اللہ کے قرب میں رہ کر روسی ترجمہ قرآن پر قابل ذکر کام کرنے کی توفیق ملی۔
1991ء میں منشی قمرالدین صاحب بیمار ہوئے تو میرٹھ تشریف لے گئے اور چند روز بعد وہاں وفات پائی۔
آپ کے بارہ میں یہ مضمون مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب کے قلم سے روزنامہ ’الفضل‘ ربوہ 6؍جولائی 2000ء میں شامل اشاعت ہے۔