محترم میاں اقبال احمد صاحب ایڈووکیٹ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اکتوبر 2003ء میں مکرمہ امۃالقدوس صاحبہ اپنے مضمون میں محترم میاں اقبال احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع راجن پور کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ میرا آپ سے کوئی رشتہ نہ تھا لیکن آپ میرے والد کی طرح تھے۔ میرے والد تھرپارکر میں ہوتے اور بہت دیر بعد گھر آنا ہوتا۔ ایسے میں آپ سے مَیں نے باپ کا پیار اور تحفظ کا احساس پایا۔ حفاظت کی غرض سے روز رات کو دو تین بار ہمارے گھر کے باہر سے چکر لگاکر جاتے۔ ہمیشہ متبسم رہتے۔ سادہ مگر پُروقار شخصیت تھی۔ تقریر کرتے تو سب محو ہوجاتے۔ جماعت کے ہر فرد کو سینے سے لگاکر رکھتے لیکن اپنی خاطر کسی کو تکلیف میں نہ ڈالتے۔ کئی بار آپ سے محافظ رکھنے کو کہا گیا لیکن جواب دیتے کہ اپنی خاطر کسی اَور کو خطرہ میں کیوں ڈالوں؟
آپ کا تعلق ایک غیراحمدی خاندان سے تھا لیکن آپ ایسے فدائی تھے کہ ہر وقت جان، مال ،وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار رہتے۔ اسیری بھی آپ کو جھکا نہ سکی۔ آخر جام شہادت نوش کیا۔ خلافت سے عشق تھا۔ خطبہ کے دوران حضورؒ کی آواز بھراتی تو آپ زار زار روتے۔
کبھی وقت ضائع نہ کرتے اور جماعت کی رقم بہت احتیاط سے خرچ کرتے۔ مسجد، مربی ہاؤس، مہمان خانہ، احمدیہ ہال کے علاوہ ایک دوسری جگہ مسجد اور مربی ہاؤس بھی تعمیر کروایا۔ خود کھڑے ہوکر دن رات کام کروایا۔ مساجد اور احمدیوں کے گھروں میں پودے خود پودے لگاتے اور پھر اُن کا خیال بھی کرتے۔ خود گند اٹھاکر پھینک آتے ۔ بہت عجز و انکسار تھا۔ جو میسر ہوتا کھالیتے۔ کئی بار صبح آپ کو روٹی پانی کے ساتھ کھاتے دیکھا ہے۔
بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے۔ اچھا کام کرنے پر انہیں اپنی جیب سے انعام دیتے۔ بچے بھی آپ سے بے حد محبت کرتے۔ قریبی بستی اللہ داد کے احمدیوں کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔ آپ کو ان کا بہت فکر رہتا۔ وہاں سکول بنوایا۔ احمدیوں کو بھینسیں لے کر دیں کہ ان کا دودھ فروخت کرکے اپنا پیٹ پالیں۔ وہاں کے ایک بیمار احمدی بچہ کو ہسپتال داخل کروانا تھا لیکن والد کے پاس خرچ نہیں تھا۔ آپ کو علم ہوا تو آپ نے سارا خرچ برداشت کیا۔ کئی بچیوں کی رخصتی میں دل کھول کر مدد کی، غرباء کی مالی خدمت کیلئے ہر وقت تیار رہتے۔ جب راجن پور کی جماعت کے پاس مسجد کی تعمیر کی استطاعت نہیں تھی تو آپ نے احمدی خواتین کو کہا کہ جب بھی وہ آٹا گوندھنے لگیں تو دو مٹھی آٹا الگ برتن میں ڈال دیا کریں۔ پھر ہر ہفتہ آپ وہ آٹا جمع کرکے بیچ آتے اور وہ رقم مسجد فنڈ میں جمع کردی جاتی۔ گھروں سے پرانے جوتی اور دوسری بے کار چیزیں بھی جمع کرکے بیچا کرتے اور وہ رقم بھی خدمت کے کاموں میں لگ جاتی۔ اگر ضلع میں کسی جگہ دورے پر جانا ہوتا لیکن پیسے نہ ہوتے تو پیدل ہی سفر کرآتے۔ جب چندہ کی ادائیگی کی بات ہوتی تو آپ کسی سے پیچھے نہ تھے۔ اپنی مرحومہ بیوی کی طرف سے بھی باقاعدگی سے چندہ ادا کیا کرتے اور اپنے کئی بزرگوں کی طرف سے بھی مالی تحریکات میں حصہ لیتے تھے۔
آپکی شہادت پر سینکڑوں غیراحمدیوں نے آکر تعزیت کی۔ کئی خواتین دھاڑیں مار مار کر روئیں۔ ایک غیرازجماعت خاتون نے مجھے بتایا کہ آپکی شہادت کے تین دن بعد تک اُس کے گھر میں چولہا نہیں جلا۔ آپ نے خدمت خلق کرتے ہوئے بہت عمدہ زندگی گزاری اور شاندار موت آپ کا مقدر ٹھہری۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں