محترم میاں عبدالحمید صاحب آف کوئٹہ
لجنہ کینیڈا کے سہ ماہی رسالہ ’’النساء‘‘ کے جلسہ سالانہ نمبر 1999ء میں مکرمہ طیبہ حبیب صاحبہ اپنے والد محترم میاں عبدالحمید صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ ایک غیراز جماعت گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی سایہ پدری سے محروم ہوگئے۔ ایمن آباد (ضلع گوجرانولہ) سے نویں تک تعلیم حاصل کی تو آپ کے ایک ماموں آپ کو اپنے ہمراہ کوئٹہ لے گئے۔ آپ کے کوئٹہ میں قیام کے دوران 1935ء کا وہ تاریخی زلزلہ آیا جس نے آپ کو احمدیت کی نعمت سے فیضیاب کردیا۔ اُس رات آپ صحن میں ایک دیوار کے ساتھ ہی چارپائی پر سو رہے تھے کہ اچانک کوئی سفید کپڑوں میں ملبوس شخص بڑا سا جھنڈا لے کر آپ کے سامنے آگیا۔ جھنڈے پر کسی نورانی شخصیت کی تصویر تھی جس کے نیچے درج تھا ’’دنیا میں ایک نذیر آیا، پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا۔ خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘۔ ابھی آپ حیرت سے یہ نظارہ دیکھ ہی رہے تھے کہ وہ شخص واپس مڑا۔ آپ بھی اُس کے پیچھے بھاگے تاکہ پوچھ سکیں کہ جھنڈے پر کس ہستی کی تصویر ہے اور اس عبارت کا کیا مطلب ہے۔ لیکن وہ شخص کہیں غائب ہوگیا اور اسی اثناء میں زلزلہ کے شدید جھٹکے سے دیوار اُس چارپائی پر آگری جس پر آپ کچھ دیر پہلے سو رہے تھے۔ چارپائی بالکل ٹوٹ گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا۔ پھر آپ واپس ایمن آباد آگئے لیکن یہ تجسس بے چین کرتا رہا کہ وہ تصویر کس کی تھی۔
ایک سال کے بعد جب آپ نے میٹرک کا امتحان دیا تو آپ کی والدہ نے آپ کو جے پور بھجوادیا جہاں آپ کی ایک ہمشیرہ رہتی تھیں اور اُن کے شوہر ڈاکٹر قاضی لطیف احمد صاحب کا تعلق ایک احمدی گھرانے سے تھا۔ چنانچہ یہاں جب دیوار پر آویزاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر آپ کی نظر پڑی تو آپ حیران رہ گئے کہ یہ تو اُنہی بزرگ کی تصویر تھی جو آپ کے ذہن پر نقش ہوچکی تھی۔ چنانچہ آپ نے احمدیت کا لٹریچر لے کر پڑھا اور جلد ہی بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ جب آپ نے واپس آکر یہ خوشخبری اپنی والدہ کو سنائی تو وہ چراغ پا ہوگئیں اور پہلے تو آپ کی خوب پٹائی کی گئی اور پھر گھر چھوڑنے کا حکم ملا۔ آپ کے بھائی جو آپ سے بہت پیار کرتے تھے، اب آپ کو ٹھوکریں مارتے ہوئے گھر کے دروازے تک لائے اور ہمیشہ کے لئے لاتعلقی کا حکم دیدیا۔
گھر سے نکل کر آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ اگر شہر میں کوئی احمدی تھا بھی تو آپ کو اس کا علم نہیں تھا۔ چنانچہ آپ ریلوے سٹیشن پر چلے گئے اور مزدوری کرکے گزارہ کرنے لگے۔ رات کو وہیں بنچ پر سو رہتے۔ چند روز بعد آپ کو ریلوے میں گینگ مین کی ملازمت مل گئی اور رہائش کے لئے ایک مکان بھی مل گیا۔ اس طرح سردیوں میں اسٹیشن پر رات گزارنے کے تکلیف دہ خیال سے بھی نجات مل گئی۔ پھر آپ نے مزید ٹریننگ حاصل کی اور بہت جلد جلد ترقی کی۔ آپ کی ایمانداری کی وجہ سے آپ کا تبادلہ بھی بہت جلد مختلف جگہوں پر ہونے لگا۔ یہ بظاہر سزا آپ کے خاندان کیلئے یوں رحمت کا موجب بن گئی کہ آپ نے اپنی فیملی کو سکونت اور تعلیم کے لئے ربوہ بھجوا دیا ۔
پھر حالات نے اس طرح رُخ بدلا کہ جب آپ کے والد صاحب کی وفات ہوئی تو مالی تنگی کے وقت آپ کی والدہ کو آپ کی یاد آئی اور آپ کو ایمن آباد آنے کا پیغام ملا۔ آپ اُس وقت کوئٹہ میں ملازم تھے۔ جب آپ گھر پہنچے تو آپ کی والدہ نے آپ سے کہا کہ آپ اپنے بھائی کی تعلیم کے اخراجات برداشت کریں۔ آپ نے واپس کوئٹہ آکر اپنی والدہ کو لکھا کہ آپ صرف اس شرط پر یہ اخراجات ادا کریں گے اگر آپ کے بھائی قادیان جاکر تعلیم حاصل کریں۔ اس پر آپ کی والدہ راضی نہ ہوئیں لیکن آپ کے بھائی نے یہ کہہ کر آپ کی پیشکش قبول کرلی کہ ’’اگر آپ کو یہ وہم ہے کہ میرا ایمان کمزور ہے تو آزما کر دیکھ لیں کیونکہ میں کسی بھی جگہ رہوں دین سے اور اپنے عقیدے سے دُور ہونے والا نہیں‘‘۔ چنانچہ آپ کے بھائی قادیان جاکر تعلیم حاصل کرنے لگے اور چھ ماہ کے اندر ہی بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت پالی۔ کچھ سالوں بعد آپ کے دوسرے بھائی اور والدہ بھی احمدیت کی آغوش میں آگئے۔
محترم میاں صاحب 7؍مئی 1987ء کو ربوہ میں فوت ہوئے۔