محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جون 2000ء میں محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے۔ آپ 17؍جون 2000ء کو 84 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کی اندرونی چاردیواری میں عمل میں آئی۔ آپ 13؍مارچ 1916ء کو محترم پروفیسر علی احمد صاحب بھاگلپوری کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام عبدالرب تھا جو حضرت مصلح موعودؓ نے ایک رؤیا کی بنا پر عبدالرحیم احمد رکھ دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے بی۔اے کیا اور یونیورسٹی میں دوم رہے۔ 1936ء میں آپ نے اپنی زندگی وقف کردی۔ یکم جولائی 1940ء سے خدمت کا آغاز کیا جو 31؍دسمبر 1985ء تک جاری رہا جس کے بعد دل کے عارضہ کے باعث آپ صاحب فراش ہوگئے۔ ابتدائی دس سال آپ نے سندھ میں تحریک جدید اور حضرت مصلح موعودؓ کی زمینوں کی نگرانی کی۔ 1950ء میں تحریک جدید کے وکیل التعلیم مقرر ہوئے اور پھر وکیل الزراعت اور وکیل الدیوان بنائے گئے۔ دو بار قائمقام وکیل اعلیٰ بھی رہے۔ صاحب فراش ہونے کے بعد آپ کو حضور انور ایدہ اللہ کے خطبات کے انگریزی تراجم کرنے کی سعادت بھی ملی۔
22؍مارچ 1940ء کو آپ کو نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی بیٹی صاحبزادی محترمہ امتہ الرشید صاحبہ سے پڑھا جو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی نواسی ہیں۔ اُن کے نام حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ نے اپنے تعزیتی مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’مَیں اُن کی نیک طبیعت اور میٹھے، دھیمے مزاج اور خادم دین ہونے کے حوالہ سے اُن کے لئے محبت و احترام کے جذبات رکھتا ہوں‘‘۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍جولائی 2000ء میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب نے محترم میاں صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ آپ کی کوٹھی کے ایک کمرہ میں آپ کے والد محترم رہائش پذیر تھے اور ایک کمرہ میں محترم صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب قیام رکھتے تھے۔ یہ کوٹھی کتنے ہی نابغہ روزگار افراد کو سمیٹے ہوئے تھی جس کا مطلب تھا کہ گھر والوں کے دل کشادہ ہیں۔ کئی بار میاں صاحب نے راہ چلتے ہمیں روک لیا کہ آئیے اکٹھے کھانا کھائیں، آج گھر میں اَور کوئی مہمان نہیں ہے۔ برسوں بعد اُن کی بیٹی نے اپنے ابا کو یاد کرتے ہوئے بیان کیا کہ ابا تو جب تک کسی مہمان کو ساتھ بٹھاکر کھانا نہ کھلائیں، اُن کا لقمہ حلق سے نہیں اترتا تھا۔