محترم میاں مبشر احمد صاحب شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13 اکتوبر 2010ء میں مکرمہ ن۔ مبشر صاحبہ نے اپنے مضمون میں اپنے خاوند محترم میاں مبشر احمد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو 28 مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہید کردیئے گئے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 28مئی 2010ء کے ایک ہی دن میں کتنے گھروں کے سائبان اٹھ گئے۔ اس دن ہمارے گھر میں بھی دو جنازے پہنچے۔ ایک میرے خاوند مکرم میاں مبشر احمدصاحب کا اور دوسرے میرے کزن مکرم میاں فدا حسین صاحب کا۔
مکرم میاں برکت علی صاحب اور مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کے ہاں مکرم میاں مبشر احمد صاحب 1944ء میں کھاریاں میں پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے ان کے بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے تھے۔ بہت دعائوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی والا بچہ دیا۔ تین سال کی عمر میں ماں کی شفقت سے محروم ہو گئے۔ دو بھائی اَور تھے جو اپنی خالہ کی زیر عاطفت پلنے لگے۔ دس سال کی عمر میں دوسری والدہ آ گئیں جن سے اللہ تعالیٰ نے 7بھائی اور دو بہنیں عطا کیں۔ شہید مرحوم کو اپنے سب بہن بھائیوں سے بے مثال محبت تھی اور آپ اپنی دوسری والدہ کا بہت احترم کرتے تھے۔ جب آپ کے والد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ کے سب سے چھوٹے بھائی کی عمر 4سال تھی۔ چنانچہ سب بھائی بہنوں کی تعلیم اور تربیت کا خیال رکھا اور پھر کاروبار اور شادی کی ذمہ داریاں بھی احسن طریقے سے نبھائیں اور ہمیشہ اُن کی مدد پر آمادہ رہے۔ 2000ء میں آپ نے اپنا گھر فروخت کیا تاکہ دوسرا خرید سکیں۔ انہی دنوں آپ کے بھائیوں نے ایک کارخانہ خریدا جس میں کچھ رقم کی ضرورت تھی۔ آپ نے گھر خریدنے کا اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور وہ رقم اپنے بھائیوں کو دے دی۔
آپ ایک نیک دل اور نیک فطرت انسان تھے۔ چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی جو شہادت کے وقت بھی نمایاں نظر آ رہی تھی۔ جس محفل میں جاتے ایک لطیف تأثر چھوڑتے تھے۔ موقع محل پر لطیفوں کے ذریعے ماحول خوشگوار کردیتے تھے۔
آپ ایسے صلح جُو انسان تھے جو کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوتا تھا۔ اپنے رشتہ داروں یا کسی احمدی گھر میں ناراضگی کا پتہ چلتا تو ان کی صلح کرا کے ہی دم لیتے۔ کبھی جھوٹ بولا نہ غیبت کی۔ گھر میں کبھی کسی نے کسی کے بارے میں کوئی بات کی تو فوراً کہتے کہ اُن کی باتوں کو چھوڑیں، ہم اپنی باتیں کرتے ہیں۔ ہمیشہ دوسروں سے احسان کا سلوک کرتے۔ اگر کوئی زیادتی کرتا تو یہی کہتے کہ میں نے اس سے اجر نہیں لینا، میں تو خداتعالیٰ سے اجر کا طلبگار ہوں۔
جب سیلاب آتا تھا تو گھر کے قریب ایک عیسائی بستی نشیب میں ہونے کی وجہ سے قریباً ڈوب جاتی تھی۔ آپ اپنے گھرکا ایک حصہ رہنے کے لئے انہیں دے دیا کرتے تھے اور جب تک اُن کے گھروں سے پانی نہ نکل جاتا وہ وہاں ہی رہتے۔ ہمسایوں سے ایسا تعلق تھا کہ جب وزیر آباد سے گوجرانوالہ شفٹ ہوئے تو ہمسایوں نے رو رو کر رخصت کیا اور یہی کہتے رہے کہ آپ جیسا ہمسایہ ہمیں کبھی نہیں ملے گا۔ گوجرانوالہ میں جب کرایہ دار تھے تو مالک مکان آپ کے نیک اطوار کو دیکھ کر یہی اظہار کرتی تھی کہ میں بہت خوش قسمت ہوں مجھے آپ جیسا کرایہ دار ملا اور خواہش کرتی کہ اُس کے بچوں کو اپنی سرپرستی میں رکھیں۔
اللہ تعالیٰ پر بے حد توکل تھا۔ 1974ء میں آپ مختلف مشروبات کے ڈسٹری بیوٹر تھے۔ مخالفین نے آپ کی ایجنسی پر دھاوا بول دیا اور ساری بوتلیں اٹھا کر لے گئے۔ کاروبار بظاہر ختم ہو گیا مگر آپ کی زبان پر حرف شکایت نہ آیا۔ نہایت محنتی اور دیانتدار تھے۔ کئی بار جعلی مشروبات بنانے والے آتے اور سہانے سپنے دکھاتے کہ آپ ہماری تھوڑی سی بوتلیں اصلی کے ساتھ Mix کرکے بیچیں گے تو دنوں میں امیر ہو جائیں گے۔ آپ معذرت کے ساتھ ان کی پیشکش مسترد کر دیتے۔
آپ اپنے ملازمین سے بہت محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے اور اُن کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ ان کے لئے اُن کی پسند کا کھانا گھر سے پکواکر لے جاتے تھے۔ کئی ملازموں کی شادیاں بھی کرائیں۔ وہ بھی آپ کو اپنے باپ کی طرح سمجھتے تھے۔
آپ ایک شفیق باپ تھے۔ بچوں کو کبھی جھڑکتے نہ تھے۔ اگر اُن سے کوتاہی ہوجاتی تو نرمی سے سمجھاتے اور بہت دعائیں کرتے تھے۔ گھر سے دُور بچوں کو کوئی تکلیف پہنچتی تو آپ کی چھٹی حس بتا دیتی۔ آپ فون کرتے تو واقعی اس بچے کو کوئی نہ کوئی تکلیف ہوتی۔ اپنے بیٹے عزیزم قمر احمد (مبلغ بینن) کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے کہ ہر کام خداتعالیٰ کی رضا کے لئے کرنا ہے، دعا کرنی ہے اور نتیجہ خداتعالیٰ پر چھوڑ دینا ہے۔
ہمارے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور ایک بچی ہم نے ایک احمدی گھرانے سے گود لی ہے۔ اس سے بہت محبت تھی اور اس کو بہت اچھے سکول میں تعلیم دلوا رہے تھے۔ اپنے بیٹوں سے یہی کہتے کہ میری یہ ایک امانت آپ کے پاس ہے، اس کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھنا اور اس کی کسی نیک گھرانے میں شادی کرنا۔
میرے ساتھ ان کا رویہ نہایت دوستانہ تھا۔ میری 38 سالہ ازدواجی زندگی میں کوئی لمحہ نہیں ملتا کہ ڈانٹ تو درکنار کبھی سخت لہجے میں بات کی ہو۔ گھریلو معاملات میں کبھی دخل اندازی نہ کرتے۔ مجھے کافی عرصہ بطور صدر لجنہ ضلع خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ آپ نے چندہ اور رپورٹیںمرکز تک پہنچانے کی ذمہ داری لی ہوئی تھی جو احسن طریقہ سے نبھائی۔
آپ نہایت ہی بے نفس اور سچے انسان تھے۔ جماعت اور خلافت سے غیر معمولی محبت تھی۔ ساری زندگی مختلف جماعتی خدمات بجالاتے رہے۔ آپ کے ماموں محترم میاں غلام احمد صاحب کافی عرصہ امیر ضلع گوجرانوالہ رہے ۔ آپ اُن کے دست راست تھے۔ کوئی بھی مشکل کام آپ کے ذمہ لگایا جاتا تو اپنے ذاتی کام چھوڑ کر اُسے مکمل کرتے۔ 1974ء کے پُر آشوب دَور میں کوئی جماعتی ڈاک لے کر ربوہ گئے۔ واپسی پر چنیوٹ میں جلوس نے بس کو روک لیا کہ اس میں کوئی مرزائی تو نہیں ہے۔ پھر آپ کو داڑھی سے پہچان لیا اور نیچے اترنے کو کہا۔ بتاتے تھے کہ مَیں نے اسی وقت لبیک کہتے ہوئے اپنی جان خدا کے سپرد کر دی۔ مگر پھر ڈرائیور کی ہوشیاری سے اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔
آپ اپنی عاجزی اور انکساری کی وجہ سے اپنے خدا سے آخرت میں پاس ہونے کے لئے 33 فیصد نمبر مانگا کرتے تھے مگر میرے غنی اور بے نیاز خدا نے آپ کو سو فیصد نمبر دے کر شہادت کا مقام عطا فرمادیا۔