محترم پروفیسر عباس بن عبدالقادر شہید

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اپریل 2002ء میں مکرم پروفیسر عباس بن عبدالقادر شہید کی سیرت کا بیان آپ کی بیٹی مکرمہ مریم بنت عباس صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم پروفیسر عباس بن عبدالقادر صاحب کا تعلق صوبہ بہار کے شہر بھاگلپور سے تھا۔ آپ کے والد محترم حضرت پروفیسر عبدالقادرؓ اور آپ کے دادا حضرت پروفیسر عبدالماجدؓ کو اصحاب احمدؑ میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت پروفیسر عبدالماجد صاحبؓ بہت منکسرالمزاج اور جید عالم تھے۔ علی گڑھ کالج کے اوّلین اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ آپؓ کا نام کالج کے سٹریچی ہال میں رقم ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے بہترین مقررین میں سے تھے۔ آپؓ کے آباء و اجداد بخارا سے شہنشاہ جہانگیر کے زمانہ میں ہندوستان آئے تھے۔ پہلے ملتان کو اور پھر بہار کو اپنا وطن بنایا۔ آپؓ کی اہلیہ محترمہ رؤوف النساء بیگم صاحبہ بھی بہت نیک اور خداترس خاتون تھیں جنہیں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار ولیہ کے لقب سے یاد کیا۔ آپؓ کے ہاں چار بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہؓ کو حضرت مصلح موعودؓ کے عقد زوجیت میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت پروفیسر عبدالقادر صاحبؓ آپؓ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے جن کا پورا نام ابوالفتح محمد عبدالقادر منظور حق تھا۔ ان کو خدا تعالیٰ نے صرف 13؍سال کی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت عطا فرمائی اور حضرت اقدسؑ کے ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے احمدیوں میں سب سے پہلے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ان کی شادی اپنی پھوپھی زاد محترمہ عائشہ بلقیس صاحبہ سے ہوئی اور ان کے بطن سے پروفیسر عباس بن عبدالقادر 30؍دسمبر 1918ء کو پورینی، بہار میں پیدا ہوئے۔
محترم پروفیسر عباس بن عبدالقادر صاحب کا بچپن پورینی میں گزرا۔ تعلیم بھاگلپور اور کلکتہ میں پائی۔ کالج کا زمانہ علیگڑھ اور پٹنہ میں گزارا۔ تاریخ کے مضمون میں ایم۔اے کرنے کے بعد آپ Ph.D. کی تیاری کر رہے تھے۔ لیکن چونکہ واقف زندگی تھے اس لئے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے تعلیم الاسلام کالج کے اجراء پر قادیان چلے گئے۔ پاکستان بننے کے بعد تعلیم الاسلام کالج لاہور سے منسلک ہوئے۔ پھر خیرپور سندھ تشریف لے گئے اور تادم شہادت (2؍ستمبر 1974ء) سندھ کے شعبہ تعلیم میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ساری زندگی ایک فیض رساں وجود کے طور پر گزاری۔ اپنے کئی شاگردوں کی فیس کے علاوہ، کتابوں کی خرید اور بس کے کرایہ کی ضروریات پوری کردیا کرتے تھے۔ ہمیشہ دینے میں خوشی محسوس کی۔ اپنا چندہ وصیت بھی اپریل 1975ء تک ادا فرماچکے تھے۔ موسم سرما میں کئی مستحق لوگوں کی اپنے کپڑوں کے ذریعہ مدد کردیا کرتے تھے۔ ہمیشہ تقویٰ کو پیش نظر رکھا اور کئی بار حکام بالا کی ناراضی بھی مول لی۔ ہمیشہ انسانیت کا درد محسوس کیا۔ کئی کالجوں میں بطور پرنسپل تعینات رہے اور ہر جگہ طلباء میں عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ کئی طلباء کو فارغ اوقات میں بغیر فیس کے پڑھایا کرتے۔
آپ احمدیت کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے۔ تبلیغ کے لئے خاموش نمونہ پیش کرنے کے قائل تھے۔ تاہم لٹریچر بھی دیتے اور تبادلہ خیال بھی کرتے۔ کئی افراد کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے ہدایت عطا فرمائی۔
خود شعر نہیں کہتے تھے لیکن ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ گھر میں اکثر روایتی محفل مشاعرہ منعقد ہوتی۔ تلاوت قرآن کریم سے بھی بہت شغف تھا۔ ہر غلط بات کو پوری جرأت کے ساتھ غلط کہتے۔ ایک بار ذوالفقار علی بھٹو جو ایوب خان کی حکومت کے وزیر تھے، خیرپور آئے اور ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کوئی خلاف واقعہ بات کہہ دی۔ آپ نے فوراً اٹھ کر اُس بات کی تردید کی اور صحیح بات بیان کی۔ آپ کے بارہ میں محترم پروفیسر چودھری محمد علی صاحب نے اپنی ایک نظم سے بالکل ٹھیک کہا تھا

مَیں روحِ عصر ہوں نہ مجھے موت سے ڈرا
میری ادا کو جان مجھے ماپ تول بھی

اپنے ملازموں کے جذبات کا بہت خیال رکھتے، اُن کے کاموں میں اُن کی مدد کرتے اور اُن کے نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ کا لاحقہ لگاتے۔ مختلف گروہوں کے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ سندھ کے لسانی فسادات کے دوران ہر کالج ہنگاموں کی زَد میں آیا لیکن آپ کے کالج میں کبھی کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ آپ کی شہادت سے کچھ عرصہ قبل مجھے خواب میں واضح طور پر دکھایا گیا کہ گویا آپ شہید ہوچکے ہیں۔ اُس وقت آپ خیرپور میں تھے جبکہ باقی گھر والے حیدرآباد میں رہتے تھے۔ اگست 1974ء میں جب آپ ملنے گھر آئے تو آپ کے بھائی پروفیسر ڈاکٹر عقیل بن عبدالقادر صاحب نے کہا کہ اب آپ واپس نہ جائیں، مجھے انشراح نہیں ہے۔ لیکن آپ نے جواب دیا کہ مجھے جانا ہی ہوگا۔ آپ چلے گئے لیکن اس کے بعد بہت بے چینی رہی۔ 2؍ستمبر کی رات خیرپور کے ڈپٹی کمشنر نے آپ کے بھائی کو فون کرکے بتایا کہ آپ خیرپور میں حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پاگئے ہیں اور آپ کی نعش لینے کیلئے کسی کو خیرپور آنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ حیدرآباد بھجوائی جارہی ہے۔ رات گئے ایک ٹرک کے ذریعہ نعش حیدرآباد پہنچی جو سخت گرمی کے باوجود لحافوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ آپ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ انہیں علم نہیں کہ آپ کی وفات کیسے ہوئی تھی۔ جب غسل دیا جانے لگا تو آپ کے چھوٹے بھائی پروفیسر ڈاکٹر زید بن عبدالقادر صاحب نے آپ کے جسم پر زخموں اور تشدد کے نشان دیکھے۔ اس پر پوسٹ مارٹم کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کو جسم اور سر پر کئی گولیاں ماری گئی ہیں۔ پھر جب آپ کی تدفین حیدرآباد میں ہوئی تو شرپسندوں کی وجہ سے میت کو قبرستان سے نکال کر ربوہ لے جانا پڑا۔ اس دوران تفتیشی حکام نے بھی دھمکی آمیز رویہ اپنالیا۔
آپ کی وفات کا صدمہ آپ کے والد حضرت پروفیسر عبدالقادر صاحبؓ نے بڑی ہمت سے برداشت کیا۔ صرف ایک بار آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک بار خواب میں مجھے جنت کے پھلوں میں سے پھل پیش کے گئے تو مَیں حیران ہوا کہ مجھ گناہ گار سے کونسا ایسا عمل سرزد ہوا کہ خدا تعالیٰ کا یہ احسان ہوا۔ عباس کی شہادت کے بعد مجھ پر یہ تعبیر واضح ہوئی کہ شہید اولاد جنت کے پھلوں سے تعبیر کی جاتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں