محترم پروفیسر چودھری خلیل احمد صاحب (صدر مجلس نابینا ربوہ)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 نومبر 2010ء میں مکرم ابن کریم صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم پروفیسر چودھری خلیل احمد صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
آپ کی جفاکشی، محنت اور فرائض کی بجاآوری قابل قدر تھی۔ آپ سیلف میڈ (Selfmade) انسان تھے۔ گرمی ہو، سردی ہو، دھوپ ہو، بارش ہو، باقاعدگی کے ساتھ کالج تشریف لے جایا کرتے اور نمازوں خصوصاً جمعہ باقاعدگی سے ادا کرتے حالانکہ مسجد کافی فاصلہ پر تھی اور آپ بصارت سے محروم تھے۔ لیکن عبادت الٰہی سے تو آپ کو خاص اُنس اور رغبت تھی۔ وفات والے دن بھی نماز جمعہ ادا کرکے گھر پہنچے ہی تھے کہ دل کی تکلیف ہوگئی اور نماز عصر سے قبل ہی آپ وفات پاگئے۔
مکرم پروفیسر صاحب کو بہت بچپن میں شدید بخار کی وجہ سے آنکھوں کا عارضہ ہوگیا تھا اور 14,13 سال کی عمر میں دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ مگر اس بچے نے اس ابتلاء سے مایوس ہونے کی بجائے محنت کرکے اللہ کے فضل کو سمیٹتے ہوئے علمی لحاظ سے اتنی ترقی کی کہ دوسروں میں علم پھیلانے پر مامور ہوگئے۔ اس راہ میں بینائی نہ ہونے کی وجہ سے جو مشکلات آتی رہیں اُن کا ہمت اور جرأت کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کیا۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ہمارے ایک مربی سلسلہ بھی بینائی سے محروم ہیں۔ ایک دن مَیں نے انہیں بازار میں دیکھ کر پوچھا کہ کہاں جارہے ہیں؟ پھر ایک تانگہ والے کو وہاں کا کرایہ دے کر آپ کو سوار کرادیا۔ اور باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ آجکل بحیثیت مربی کہاں تعینات ہیں؟ فرمانے لگے میں ان دنوں ضلع لاہور کے ایک گاؤں میں بطور مربی تعینات ہوں۔ مَیں نے کہا وہاں تو دائیں بائیں مختلف جماعتیں بھی ہوں گی جہاں آپ کو دورہ کرنا پڑتا ہوگا۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے کہا پھر تو آپ کو بہت مشکل پیش آتی ہوگی؟ فرمانے لگے مشکلات تو ہوتی ہی ہیں مگر اسی طرح جس طرح آپ نے دُور سے مجھے آتا دیکھ کر تانگہ بھی منگوالیا اس میں مجھے بٹھا بھی دیا اور کرایہ بھی دیدیا۔ بس اسی طرح جماعتی سفروں پر لمحہ بہ لمحہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوتی رہتی ہے۔
پروفیسر خلیل صاحب شروع دن سے ہی محنتی تھے۔ جب بینائی سے محروم ہوئے تو بریل سسٹم سے پڑھائی جاری رکھی۔ بریل سسٹم پر نہ صرف دنیاوی تعلیم بلکہ قرآن کریم کی تلاوت بھی خوب آسانی اور عمدگی کے ساتھ کرتے۔ قرآن کریم سے اتنا لگاؤ تھا کہ اکثر و بیشتر قرآن کریم کی تلاوت میں مگن رہتے اور محاورہ اتنا ہوگیا تھا کہ کوئی دوسرا تلاوت کرتے وقت غلطی کرتا تو اس کی تصحیح کروا دیتے۔ کالج میں لیکچرز کی تیاری کے لئے کوئی مضمون بریل میں نہ مل سکتا تو اپنے بچوں سے وہ مضمون پڑھواکر سنتے اور اُسے ڈسکس (Discuss) کرتے۔
خداتعالیٰ نے اولاد کے حوالے سے بھی آپ پر خاص فضل فرمایا۔ تین بیٹے اور 2 بیٹیاں اپنے گھروں میں خوشحال ہیں۔ ایک بیٹا نصرت جہاں سکیم کے تحت بیرون ملک ہے۔
مکرم پروفیسر صاحب نے خلافت رابعہ میں حضورؒ کی خدمت میں مجلس نابینا کے قیام کی درخواست کی۔ حضور انور نے نہ صرف اس درخواست کو قبول فرمایا بلکہ آپ کو مجلس نابینا کا پہلا صدر بھی مقرر فرمادیا۔ اس کے بعد خلافت لائبریری میں باقاعدہ ایک سیکشن بھی بنایا گیا۔ جہاں ہمارے نابینا افراد اور حفاظ کرام بریل سسٹم اور آڈیو کیسٹس کے ذریعہ اپنے اپنے کاموں میں جتے رہتے ہیں۔ پھر اسی مجلس کے ماتحت سالانہ پروگرامز بھی منعقد ہونے لگے۔ مختلف تقریبات اور مشاعروں کا انعقاد ہونے لگا۔ غرضیکہ آپ کی محنت سے یہ ایک منفرد سی تنظیم نہایت فعال دکھائی دینے لگی۔ بیرون شہر سے نابینا دوستوں کی کرکٹ ٹیمیں بھی یہاں آئیں اور میچ کھیلے۔
آپ کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔