محترم پی-محمد کینانور صاحب درویش قادیان
ایک درویش کی یادگذشت
تقسیم ملک کے وقت جب حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تحریک فرمائی کہ حفاظت مرکز قادیان کے لئے ہر جماعت سے دو دو نوجوان خود کو پیش کریں تو اس تحریک پر جماعت احمدیہ بمبئی کے کئی افراد نے لبیک کہا۔ چنانچہ انتخاب کے لئے قرعہ اندازی ہوئی اور کنور (کیرلہ) کے دو خدام کو، جو بسلسلہ ملازمت بمبئی میں مقیم تھے، قادیان جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ تھے محترم پی-محمد کینانور صاحب (عمر20 سال) اور آپکے بھانجے مکرم زین العابدین صاحب (عمر 19 سال)۔ اول الذکر کی زبانی ان کی کہانی مکرم محمد عمر صاحب کے قلم سے ’’بدر‘‘ کی اس خصوصی اشاعت میں شامل ہے۔
دونوں منتخب خدام کو جب قادیان کیلئے فوری رخت سفر باندھنے کی ہدایت ملی تو اس وقت شمالی ہندوستان شدید فسادات کی لپیٹ میں تھا اور دہلی کے راستے قادیان جانا اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا تھا۔وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں اطلاع ملی کہ بمبئی سے ایک بحری جہاز ہندوؤں کو لانے کیلئے کراچی جا رہا ہے تو بڑی مشکل سے ہمیں بھی اس میں جانے کی اجازت اور ٹکٹ مل گئی۔ کراچی پہنچنے کے اگلے روز ہی ہم بذریعہ ٹرین لاہور روانہ ہوئے۔ ٹرین میں رش اتنا تھا کہ لوگ چھتوں پر بھی سوار تھے۔ یہ سارا راستہ بغیر کچھ کھائے پئے، اکڑوں بیٹھے ہوئے گزارا اور نیم مردہ حالت میں لاہور سٹیشن پہنچے۔ وہاں بھی چائے نہ مل سکی۔ اسی حالت میں ایک گھوڑا گاڑی کے ذریعے رتن باغ پہنچے اور مہاجر کیمپ میں جاتے ہی اپنا مدعا بیان کیا۔ دفتر کے افسران نے قادیان بھجوانے کے بارے میں تردد کا اظہار کیا تو ہم نے حضورؓ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ حضورؓ نے ہماری درخواست سن کر فرمایا کہ ہم دونوں کے قادیان جانے کا انتظام کیا جائے گا۔ … ابھی دس بارہ دن ہی مہاجر کیمپ میں گزارے تھے کہ ایک صبح آٹھ مسلمانوں کو ایک ٹرک میں جگہ مل گئی جو ہندوؤں اور سکھوں کو لے کر قادیان جا رہا تھا۔ ہم بھی ان میں شامل تھے۔ لیکن سرحد پر پہنچتے ہی مسلمانوں کو اترنے پر مجبور کردیا گیا اورہم واپس کیمپ میں پہنچ گئے۔پھر چند دن بعد ایک وین کے ذریعے ہم صرف ایک جوڑا ساتھ لے کر قادیان روانہ ہوئے۔ وین کے ساتھ 12 ٹرک بھی تھے جن پر 313 درویشان کے علاوہ باقی احباب کو پاکستان بھیج دیا جانا تھا۔ قادیان تک سارے سفر میں کوئی کھانا نہیں ملا تھا۔ قادیان پہنچے تو مسلسل کئی ہفتوں کے تکلیف دہ سفر اور غذا نہ ملنے سے ہمیں خونی اسہال شروع ہوگئے۔ اس وقت قادیان میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے معجزانہ شفا عطا فرمائی۔
قادیان پہنچ کر میری حفاظتی ڈیوٹی رات 12 سے 2 بجے تک اور میرے ساتھی زین العابدین صاحب کی 2 سے 4 بجے تک مقرر ہوئی ۔ لیکن ہم دونوں اکٹھے 12 سے 4 بجے تک ڈیوٹی سرانجام دیتے۔ پھر مسجد مبارک جاکر نماز تہجد ادا کرتے اور فجر کے بعد بہشتی مقبرہ جاکر دعا کرتے۔ پھر لنگر خانہ سے دو دو روٹی اور پتلی دال کھاکر ٹھیک 10 بجے دوبارہ بہشتی مقبرہ میں پہنچ جاتے جہاں دیگر درویشوں کے ساتھ بہشتی مقبرہ کی چاردیواری کی تعمیر کا کام کرتے اور دوپہر کو نہا دھوکر ظہر کی نماز پڑھتے اور پھر عصر تک آرام کرتے۔ ایسے میں شدت کی بھوک لگا کرتی لیکن سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر جیب میں پیسہ ہوتا تو بھی کھانے کی کوئی چیز دستیاب نہ تھی۔ ہمیں دو وقت کی روٹی کے علاوہ دیگر ضروریات کے لئے 5 روپے ماہوار ملا کرتے تھے۔
ہم اگرچہ تین ماہ کے لئے یہاں آئے تھے لیکن حالات کے پیش نظر 7 ماہ تک رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تب تک ہم صحیح معانی میں درویش بن چکے تھے، قمیصیں پھٹنے لگی تھیں اور پینٹ پاجامہ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ جوتے پھٹ گئے تھے، مرمت کے لئے پیسے بھی نہیں تھے اور ہندوبازار میں جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔… ایک شام حضرت مولانا عبدالرحمٰن جٹ صاحب نے ہمیں بلا کر فرمایا کہ تین چار دنوں میں یہاں سے پاکستان کیلئے ایک بس جائے گی، آپ دونوں بھی تیار ہو جائیں۔ اگلے روز ہم نے حضرت جٹ صاحب سے عرض کیا کہ ہمیں اتنے مہینوں میں سارا قادیان بھی دیکھنے کی سعادت نہیں ملی۔ انہوں نے ایک خادم کو بلا کر مینارۃ المسیح کی چابی دی اور فرمایا کہ صرف نصف تک چڑھنے کی اجازت ہے، کیونکہ اوپر جانا خطرے سے خالی نہیں۔ چنانچہ ہم نے نصف حصہ تک چڑھ کر پورے شہر کا نظارہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔
23؍مئی 1948ء کو ہم 20؍افراد قادیان سے روانہ ہوکر لاہور پہنچے اور عصر کی نماز حضرت مصلح موعودؓ کی اقتداء میں پڑھی۔ چونکہ قانون میں تبدیلی ہونے کی وجہ سے جلد ہی ویزے کی پابندی شروع ہونے والی تھی اسلئے حضورؓ کے ارشاد پر ہم اسی دن شام کو لاہور سے کراچی کے لئے روانہ ہوگئے جہاں ایک دن کے قیام کے بعد بحری جہاز کے ذریعے بمبئی پہنچ گئے۔