محترم چودھری احمد مختار صاحب

محترم چودھری احمد مختار صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ کراچی ایک مثالی خادم دین تھے۔ اگرچہ آپ باقاعدہ واقف زندگی نہیں تھے لیکن اپنے آپ کو مکمل طور پر خدمت دین کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے باقاعدہ طور پر اپنی اور اپنی اہلیہ محترمہ پروین مختار صاحبہ کی طرف سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں وقف زندگی کی درخواست پیش کی تو حضور انور نے جواباً فرمایا کہ ’’آپ کی کون سی باگیں پہلے خلیفہ وقت کے ہاتھ میں نہیں ہیں جو اب پکڑا رہے ہیں؟‘‘۔ آپ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍اکتوبر 1997ء میں آپ کی اہلیہ محترمہ پروین مختار صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم چودھری صاحب قرآن کریم کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے اور درس دیتے تو علم و معرفت کے خزانے بکھیر دیتے۔ آپ کی اہلیہ کا بیان ہے کہ آپ صبح سیر کو نکلتے تو مقرر کیا ہوتا کہ گراؤنڈ کے پہلے چکر میں کون سی سورتیں کتنی بار پڑھنی ہیں اور دوسرے میں کونسی اور تیسرے میں کونسی۔ پھر ایک کونہ میں بیٹھ کر لمبی دعا کرتے اور دعا کی درخواست کرنے والوں کا نام لے لے کر دعا کرتے۔ اس وقت رقّت کا عالم عجیب ہوتا اور آپ خشیت الٰہی سے کانپ رہے ہوتے۔ آپ نے بارہا تفکرات کے دوران میری توجہ دعا کی طرف کروائی اورکئی بار یہ بات کہی کہ دنیاوی رشتے پر کسی طرح بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ والدین، اولاد، بیوی، بچے، بہن بھائی ، عزیز دوست سب دنیاوی بت ہیں اور میں نے بہت عرصہ پہلے یہ تمام بت توڑ دیئے ہوئے ہیں، مجھے سوائے خدا کے کسی پر کوئی بھروسہ نہیں…‘‘۔
مکرم چودھری صاحب چار بہن بھائی تھے۔ آپ کمسن ہی تھے جب والد کی وفات ہوگئی۔ محترم چودھری صاحب نے خود چھوٹی عمر میں ہی قبول احمدیت کی سعادت پائی۔ آپ کی والدہ انتہائی صابر، باہمت اور عبادت گزار خاتون تھیں۔ انہوں نے بچوں کی پرورش اس طریق پر کی کہ سب میں نظام جماعت کی محبت کوٹ کوٹ کر بھردی۔ وہ 1976ء میں لمبی عمر پاکر فوت ہوئیں۔
مکرم چودھری صاحب کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ آپ نے مجھے کبھی تم کہہ کر نہیں بلایا۔ کبھی ایک دفعہ بھی خفگی کا اظہار نہیں کیا۔ گھریلو کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتے اور نہایت تحمل اور بردباری سے خریداری میں مدد کرتے۔ … جب حضور انور نے ذیلی تنظیموں کے کام کے سلسلہ میں پرائیویٹ سیکرٹری کی معاونت کے لئے لندن کے کچھ افراد کو خدمت کا موقع دیا تو ان میں خاکسارہ کا نام بھی آیا۔ بعد میں جب بھی میں نے چودھری صاحب سے کہا کہ میں مستقل آپ کے پاس کراچی آ جاؤں تو آپ کا ایک ہی جواب ہوتا کہ جو ڈیوٹی آپ کے سپرد ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عطیہ ہے، کچھ عرصہ کی رخصت لے کر آئیں، مستقل نہیں۔
خلفائے کرام سے محترم چودھری صاحب کا بہت گہرا تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنی آخری بیماری میں قریباً ایک گھنٹہ تک بالکل تنہائی میں آپ سے گفتگو فرمائی جس کے بارے میں حضور کی وفات کے بعد جب کسی نے پوچھا تو آپ نے جواب دیا ’آپ کو بتانا ہوتا تو حضرت صاحب خود ہی بتا دیتے۔ جو بات میرے ساتھ کی ہے وہ مجھ تک رہے گی‘‘۔
مکرم چودھری صاحب کئی سال سے بڑی محنت سے کتب حضرت مسیح موعودؑ کا انڈیکس تیار کر رہے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ آپ کارکنان سلسلہ کا بے حد احترام کرتے اور ملازمین کا ہر طرح خیال رکھتے۔ آپ کے وسیع حلقہ احباب میں ہر حیثیت کے لوگ شامل تھے۔ قدم قدم پر خدمت خلق کرتے جاتے۔ ہومیو پیتھک علاج پر دسترس تھی جس سے بھرپور استفادہ فرماتے۔ ضرورتمندوں کی خاموشی سے مدد کیا کرتے۔ کبھی کسی کی برائی بیان نہیں کی۔ وقت کے بہت قدر دان تھے۔اکثر وقت پڑھنے یا لکھنے میں صرف ہوتا۔ اردو، انگریزی، عربی، فارسی،پنجابی، گورمکھی زبانوں کے ادب میں معلومات بہت وسیع تھیں۔
مکرم چودھری صاحب راتوں کو جاگ کر عبادت کیا کرتے لیکن منکسرالمزاجی کا یہ عالم تھا کہ کبھی اپنی عبادت کا ذکر نہیں کیا، صرف عملی نمونہ سے تربیت کی کوشش کرتے۔ حضور کے ارشادات کو سنتے اور فوری عمل پیرا ہوتے۔آپ کو پاکستان سے بہت محبت تھی چنانچہ دوسروں کے اصرار پر بھی برٹش شہریت نہیں لی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں