محترم چودھری رحمت خان صاحب
محترم چودھری رحمت خان صاحب 1899ء میں صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت چودھری خوشی محمد صاحبؓ کے ہاں موضع دھیرکے کلاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وزیرآباد سے حاصل کی۔ 1918ء میں میٹرک کرنے کے بعد ٹیچر کی ٹریننگ لینا شروع کی اور ساتھ ساتھ بی۔اے، بی ٹی تک تعلیم حاصل کرکے گجرات کے ایک سکول میں بطور ہیڈماسٹر تعینات رہے۔
محترم چودھری صاحب قریباً 40 سال تک صدر جماعت احمدیہ دھیرکے بھی رہے۔ بچپن سے نمازوں اور تہجد کے پابند تھے۔ ابھی آپ کی عمر صرف چودہ سال تھی کہ آپ کی زندگی میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ آپ کی ایک ٹانگ سوجنا شروع ہوگئی اور کچھ عرصے بعد اس میں سے مادہ رِسنا شروع ہوا ۔ یہ تکلیف کسی علاج سے دور نہ ہوئی اور آخر ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سُن کر آپ نے تڑپ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری شروع کردی اور یہ عہد کیا کہ اگرچہ ایسا ہونا بظاہر ناممکن ہے لیکن اگر ٹانگ ٹھیک ہوگئی تو میں آخری سانس تک کوئی نماز قضا نہیں کروں گا۔ اِس دعا کے بعد آپ نے غیرارادی طور پر اپنی ٹانگ کے زخم کو ٹٹولا تو ٹانگ کی ہڈی کا گلا ہوا ٹکڑا ٹوٹ کر آپ کے ہاتھ میں آگیا۔ … کچھ عرصہ دواؤں کے استعمال سے زخم بھر گیا اور آپ نے چلنا پھرنا شروع کردیا۔
آپ کی بیٹی مکرمہ صوفیہ خانم صاحبہ کے قلم سے آپ کا ذکرِ خیر روزنامہ الفضل ربوہ 15؍جنوری 1998ء میں ماہنامہ ’مصباح‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ محترم چودھری صاحب کا نماز تہجد کے دوران گریہ و زاری معمول تھا۔ اور آپ نے اپنی اولاد کو مشفقانہ نگرانی کرتے ہوئے نمازوں کا پابند بنایا۔
محترم چودھری صاحب نہایت درجہ صابر و شاکر تھے۔ آپ کے ایک ہونہار فرزند محترم مسعود احمد خانصاحب جو کیمیکل انجنیئرنگ میں Ph.D. کرنے کی غرض سے لندن میں مقیم تھے، صرف 26 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ یہ غمناک خبر سُن کر آپ نے نہایت صبر کا نمونہ دکھایا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار خواب دیکھا کہ حضورؓ حضرت امّ ناصرؓ والے مکان میں تشریف فرما ہیں اور گویا کسی کے منتظر ہیں۔ اتنے میں سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آپؓ کو آئی اور دروازے میں سے ایک ہاتھ مصافحے کے لئے آگے آیا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ میں نے فوراً وہ ہاتھ پہچان لیا کہ یہ ہاتھ چودھری رحمت خان صاحب کا ہے، میں نے ہاتھ پکڑ کر آگے کھینچ لیا۔ پھر حضورؓ نے تعبیر بتاتے ہوئے فرمایا کہ چودھری کا لفظ بڑائی کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے ان کے نام کا مطلب ہے ’’بہت بڑی رحمت والا‘‘۔ اس کے بعد محترم چودھری صاحب حضورؓ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لئے ربوہ تشریف لے گئے، محترم مرزا مبارک احمد صاحب بھی ہمراہ تھے۔ حضورؓ نے محترم مرزا مبارک احمد صاحب سے فرمایا کہ چودھری صاحب بڑے کام کے آدمی ہیں، انہوں نے 1922ء میں قادیان میں مجھ سے بڑی محنت سے درس لیا ہے۔ ان سے کوئی اعلیٰ سا کام لو، ان کو باہر بھیجو۔ …
چنانچہ حضرت چودھری صاحب 22؍اکتوبر 1960ء کو لندن میں احمدیہ مرکز تبلیغ کے انچارج کی حیثیت سے یہاں تشریف لے آئے اور 11؍اپریل 1964ء کو واپسی ہوئی۔ پھر تین چار مہینے بعد احمدیہ ہوسٹل لاہور کے سپرنٹنڈنٹ بنادیے گئے اور اس حیثیت سے آپ نے آخر دم تک خدمت کی توفیق پائی۔
محترم چودھری صاحب صاحبِ رؤیا تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کی دعائیں بھی قبولیت کا شرف پاتی تھیں۔ کئی بار دیکھتے دیکھتے اللہ تعالیٰ نے آپ کی خواہشوں کو پورا اور مشکلات کو حل فرمادیا۔ غیراحمدی بھی آپ کی بہت عزت کرتے اور کئی متعصّب آپ کی امامت میں نماز ادا کرلیتے۔ آپ مسجد سے گھر تشریف لاتے تو سڑک کے کنارے دوکانوں پر بیٹھے ہوئے لوگ احتراماً کھڑے ہو جاتے۔ اکثر یہ اظہار کرتے کہ چودھری صاحب جیسے بزرگ اور عقلمند شخص غلطی پر نہیں ہو سکتے اس لئے احمدیت سچی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اُن کی قبول احمدیت کی راہ میں چندوں کی ادائیگی مانع ہو جاتی۔
29؍جولائی کی رات کو چودھری صاحب کی وفات ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔