محترم چودھری شبیر احمد صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍دسمبر 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 15؍جولائی 2015ء میں مکرم محمد یٰسین خان صاحب کے قلم سے محترم چودھری شبیر احمد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

محترم چودھری شبیر احمد صاحب

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار نے 1987ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ ایک سال بعد محترم چودھری شبیر احمد صاحب سے تعارف ہوا جب آپ ہمارے محلّے میں چندہ تحریک جدید کے سلسلے میں پروگرام میں تشریف لائے۔ جب آپ کو میرے نومبائع ہونے کا علم ہوا تو آپ نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور معانقہ کیا۔ حسن اتفاق تھا کہ 1998ء میں خاکسار کا تقرّر محترم چودھری صاحب کے دفتر میں ہوا تو آپ نے میرے سپرد دفتر اوّل کے کھاتے کا کام کیا۔ بعدازاں دفتر انچارج اور پھر انسپکٹر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔
محترم چودھری صاحب مفوّضہ کام کو بہتر سے بہتر انداز میں کرنا سکھایا کرتے تھے۔ اپنی ہدایات کی تعمیل کا جائزہ بھی لیتے اور اچھا کام کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے۔ تحریک جدید کے شاملین کی تعداد بڑھانے پر بہت زور دیتے۔ محنت کرنے، دعا کے لیے خلیفہ وقت کو لکھنے اور صدقہ دے کر کام شروع کرنے کی نصیحت کیا کرتے تھے۔ سندھ میں ایک دورے کے دوران مجھے حادثہ پیش آگیا اور بائیں ٹانگ میں فریکچر ہوگیا۔ جب خاکسار فضل عمر ہسپتال ربوہ پہنچا تو محترم چودھری صاحب ہمارے دفتر کے پہلے فرد تھے جو عیادت کے لیے تشریف لائے اور آکر مجھے گلے لگایا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے تو آپ کی آواز بھی بھرا گئی۔ بہت حوصلہ دیا اور ہر دوسرے تیسرے دن پہلے ہسپتال اور پھر گھر آکر تسلّی دیتے رہے۔ جب خود نہ آسکتے تو اُس دن کسی کارکن کو بھیجتے۔ کبھی پھل اور کبھی جوس بھجواتے اور بار بار پوچھتے کہ جس چیز کی ضرورت ہو تو بِلا جھجک بتاؤں۔ میرا احساس تھا کہ اگر میرے والد صاحب زندہ ہوتے تو شاید وہ بھی مجھ سے اور میرے بچوں سے اتنا پیار نہ کرپاتے۔
ایک نئے علاقے میں مجھے بھجواتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ مرکز کی آنکھ ہوتے ہیں۔ ہر احمدی گھرانے تک پہنچیں اور اُن کے ساتھ پیار کا تعلق پیدا کریں۔آپ کا نیک نمونہ اُن کی تربیت پر اثرانداز ہوگا۔ نئے شاملین تلاش کرنے ہیں۔
آپ اکثر مجھ سے میرے بچوں کی تعلیم اور دیگر معاملات کے بارے میں پوچھتے رہتے، کبھی بیٹے کو بلاکر پیار دیتے اور بہت دعائیں دیتے۔ مَیں نے اپنی بیٹی کی شادی پر دعوت دی تو فرمایا کہ دعا کریں میری صحت ٹھیک رہے تو ضرور شامل ہوں گا۔ اُن دنوں آپ بیمار تھے۔ اس کے باوجود اپنے بیٹے کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھ کر آئے اور دعاؤں کے ساتھ میری بیٹی کو رخصت کیا۔ یہ آپ کا ناقابل فراموش احسان ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں