محترم چودھری عبدالحمید صاحب شہید
مجلس خدام الاحمدیہ ہالینڈ کے ترجمان سہ ماہی ’’نشان منزل‘‘ کے اپریل تا جون1998ء کے شمارہ میں شہید احمدیت محترم چودھری عبدالحمید صاحب کا ذکر خیر آپ کے بیٹے مکرم مظفر حسین صاحب نے کیا ہے۔
محترم چودھری صاحب 1940ء میں ضلع ملتان کے ایک گاؤں میں محترم چودھری سلطان علی صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ تقریباً 1946ء میں آپ کا سارا خاندان پنجاب سے ہجرت کرکے سندھ میں چلاگیا اورضلع نوابشاہ میں گوٹھ سلطان علی کے نام سے ایک گاؤں آباد کیا۔ یہاں آپ کے تعلقات محترم مولوی عبدالسلام صاحب ابن حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ سے ہوئے جن کی زمینیں قریب ہی تھیں۔ چنانچہ احمدیت کا تعارف حاصل ہونے کے کچھ عرصہ بعد 1949ء میں چودھری سلطان علی صاحب نے بیعت کرلی لیکن آپ کی اولاد میں سے صرف محترم چودھری عبدالحمید صاحب نے 1959ء میں قبول احمدیت کی سعادت حاصل کی۔
محترم چودھری عبدالحمید صاحب دو سال تعلیم الاسلام کالج ربوہ اور دو سال خیرپور میں بھی زیر تعلیم رہے۔ اسی دوران آپکے والد محراب پور (سندھ) منتقل ہوگئے جہاں 1965ء میں اُن کی وفات ہوگئی۔ آپ کا خاندان سماجی خدمات کی وجہ سے بہت مقبول ہوچکا تھا۔ چونکہ آپ کے بھائی احمدی نہ ہوئے تھے اس لئے والد کی وفات کے بعد پورے شہر میں صرف آپ کا گھرانہ ہی احمدی تھا۔ آپ نے اپنے بچوں کو احمدیت کے ساتھ بہت محنت سے وابستہ کئے رکھا۔ احمدی معلمین کو بلاکر انہیں دینی تعلیم دلوائی، جماعتی اخبارو رسائل لگوائے اور ہر سال جلسہ سالانہ پر اپنے ہمراہ ربوہ لے جاتے رہے۔ خود قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے اور جماعتی کتب کا ضرور مطالعہ کرتے۔ خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور آپ کی نیک نامی سے بعض شیطان صفت لوگ حسد بھی کرتے تھے۔ 1984ء میں آپ کی مخالفت شدّت اختیار کرگئی۔ آپ کے بعض دوستوں نے اطلاع دی کہ مولویوں نے آپ کے خلاف اجلاسات کئے ہیں اور بدمنصوبے بنائے ہیں۔ چند روز بعد 10؍اپریل 1984ء کو جب آپ بازار سے سائیکل پر اپنی دوکان کی طرف جا رہے تھے تو ایک شخص نے آپ کو آواز دی۔ آپ کھڑے ہوئے تو اُس ظالم نے پیچھے سے آکر سینے میں چھُری گھونپ دی جس نے گہرائی میں جاکر آپ کے پھیپھڑے کو بھی زخمی کردیا تھا۔ آپ زمین پر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ سے چُھری نکالی ۔ قریباً دو گھنٹے بعد آپ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ آپ کی تدفین پہلے امانتاً ربوہ میں قطعہ شہداء میں اور پھر بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔ آپ کی ہردلعزیزی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی وفات پر ٹاؤن کمیٹی محراب پور، تحصیل کونسل اور ضلعی کونسل نے بھی قراردادیں پاس کیں اور قاتل کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔