محترم چودھری عزیز احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍فروری 2002ء میں مکرم پروفیسر محمد خالد گورایہ صاحب اپنے خسر محترم چودھری عزیز احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 4؍فروری 1921ء کو کنیاں کلاں ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم چودھری غلام محمد صاحب انسپکٹر اشتمال اراضی و ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ کے دادا چودھری شمس الدین صاحب اپنے گاؤں کے نمبردار تھے اور علاقہ کی بااثر شخصیت تھے۔
محترم چودھری صاحب نے 1936ء میں بعمر 15 سال بیعت کی سعادت حاصل کی اور اس وجہ سے گھر سے نکال دئے گئے۔ مختلف مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے B.A. کرکے دہلی میں سرکاری ملازمت کرلی۔ 1944ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر قادیان چلے گئے اور زندگی وقف کردی۔ وہاں پہلے دارالواقفین میں قیام کیا۔ آپ کو 1944ء سے 1974ء تک نمایاں خدمت کی توفیق عطا ہوتی رہی۔ صدر انجمن احمدیہ میں محاسب، ناظر مال، ناظر صنعت و تجارت و زراعت اور قضاء بورڈ کے رکن بھی رہے اور ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کے طور پر بھی خدمت کی سعادت حاصل کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر پر درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ بہت ہردلعزیز شخصیت تھے۔
ایک بار مَیں نے آپ سے دریافت کیا کہ ہمارے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد ہیں لیکن آپ کے شاگرد آپ کو انتہائی محبت، ادب اور عزت سے ملنے آتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟۔ آپ نے خاکسار سے پوچھا کہ کیا تم اپنے شاگردوں کے فرداً فرداً نام لے کر روزانہ دعا کرتے ہو؟ خاکسار کا جواب نفی میں تھا۔ فرمایا: بس آپ میں اور مجھ میں یہی فرق ہے۔
آپ کے والد صاحب کو سرکاری ملازمت کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؓ کے ہی محکمہ میں ایک لمبا عرصہ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں ربوہ آئے اور 1956ء میں یہاں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔
محترم چودھری صاحب کی طبیعت میں سادگی، کفایت شعاری اور استغناء تھا۔ ایک عالم باعمل اور مستجاب الدعوات تھے۔ نماز تہجد کا التزام کرتے۔ ہر کسی کی مدد پر آمادہ ہوتے۔ کسی پر بوجھ بننا پسند نہ کرتے تھے۔ 1955ء میں بیمار ہوئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے (جو اُس وقت یورپ میں تھے) ازراہ شفقت آپ کو بھی علاج کے لئے سوئٹزرلینڈ بلوالیا۔ وہاں ایک پھیپھڑا جو بیماری سے زیادہ متأثر تھا، ناکارہ بنادیا گیا۔ چنانچہ 1955ء سے 2002ء تک ایک پھیپھڑے کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب لمبی زندگی گزاری۔ 4؍جنوری 2002ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔
آپ نے پسماندگان میں تین بیٹیاں چھوڑی ہیں جن میں سے مکرمہ صفیہ عزیز صاحبہ گزشتہ بیس سال سے لجنہ اماء اللہ پاکستان کی جنرل سیکرٹری ہیں۔