محترم چودھری غلام حسین صاحب

محترم چودھری غلام حسین صاحب کا ذکر خیر اُن کی پوتی مکرمہ مبارکہ سنوری صاحبہ کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍جنوری 2006ء میں شامل اشاعت ہے۔ آپ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے تایا اور سسر بھی تھے۔
محترم چودھری غلام حسین صاحب 21؍جنوری 1874ء کو جھنگ شہر میں پیدا ہوئے۔ مڈل کے امتحان میں صوبہ بھر میں اوّل رہے۔ میٹرک کے امتحان میں صوبہ میں دوم رہے۔ پھر مزید تعلیم لاہور سے حاصل کی اور مشن کالج (موجود F.C.کالج) سے بی اے کی ڈگری امتیاز سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ میں ملازمت کے بعد آپ پنجاب کے محکمہ تعلیم سے منسلک ہوگئے اور جلد ہی ڈیرہ غازیخان میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر آف سکولز مقرر ہوئے۔ پھر لدھیانہ میں ہیڈماسٹر رہے اور پھر ترقی پاکر ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کے عہدہ پر مختلف اضلاع میں متعین رہے۔ 1932ء میں ریٹائرڈ ہوئے تو قادیان چلے آئے جہاں 1927ء میں آپ نے ایک بڑا مکان تعمیر کرلیا تھا۔ 1947ء تک ناظر تعلیم کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ پاکستان بننے کے بعد جھنگ آگئے جہاں آپ کی جائیداد موجود تھی اور عزیزواقارب بھی وہیں تھے۔
محترم چودھری صاحب کے قبول احمدیت کے واقعات یوں ہیں کہ آپ کے والد جامع مسجد اہل حدیث کے امام تھے۔ جب وہ بہت ضعیف ہوگئے تو انہوں نے اپنے بچوں سے کہا کہ انہیں گھر سے باہر کسی جگہ لے جاؤ کیونکہ انہوں نے حدیث سنی ہے کہ مسافر مر جائے تو بخشا جاتا ہے۔ چنانچہ اُنہیں اُن کی زمینوں پر لے جایا گیا۔ ایک روز انہوں نے اپنے سارے عزیزوں کو اکٹھا کرکے کہا کہ میں نے رمضان میں سورج اور چاند گرہن لگنے پر بہت دعائیں کی ہیں ۔ یہ حدیث امام مہدی کے آنے کی پکّی نشانی ہے۔ اگر وہ آچکا ہے تو تم سب گواہ رہنا کہ میں نے اُسے مان لیا ہے اور کوئی تم میں سے اُسے پالے تو میرا بھی اُسے سلام کہے۔ بعد میں اُن کی وفات ہوگئی۔
جب حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کی خبر جھنگ پہنچی تو محترم چودھری صاحب کے استاد مخالفت میں بہت آگے بڑھ گئے اور اُن کی تقلید میں آپ بھی سخت مخالف بلکہ حضور علیہ السلام کی جان کے دشمن بن گئے۔ آپ نے ایک کتاب ’’عصائے موسیٰ‘‘ بھی حضورؑ کے خلاف لکھی۔ لیکن ابھی وہ شائع نہیں ہوئی تھی کہ آپ کو کالا ہیضہ ہوگیا۔ علاج کے لئے لاہور لے جایا گیا۔ پھر خواب کی بناء پر آپ نے وہ کتاب پھاڑ دی اور نئی تحقیق حضورؑ کے دعویٰ کے بارہ میں شروع کی۔ دل سے احمدیت قبول بھی کرلی۔ بلکہ ڈیرہ غازیخان میں حضورؑ کی وفات کی خبر ملی تو احمدی احباب کے ساتھ مل کر نماز جنازہ غائب بھی ادا کی۔ بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت پائی۔
محترم چودھری صاحب بہت خوش اخلاق تھے۔ دوران ملازمت کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ کسی کی شکایت بھی آتی تو نہایت لطیف پیرائے میں اُسے توجہ دلاتے۔ 1934ء میں حج کے لئے درخواست دی تو قرعہ اندازی میں آپ کا نام نکل آیا چنانچہ آپ حج کے لئے روانہ ہوگئے۔ کئی ماہ تک آپ کی کوئی خبر نہ آئی۔ ایک روز اچانک واپس پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ سلطان عبدالعزیز بن سعود کو کسی نے اُن کے بارہ میں بتایا کہ انگریزی کے علاوہ بعض دیگر زبانوں پر بھی آپ کو عبور حاصل ہے تو اُنہوں نے آپ سے چند کتب کے انگریزی تراجم کروائے اور اس وجہ سے آپ واپس جلد نہیں آسکے۔
جماعت کے نئے مرکز ربوہ کے آباد ہونے سے متعلق آپ نے بہت عرصہ پہلے ہی دو خوابیں دیکھی تھیں۔ ایک میں آپ کو بتایا گیا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے ’’تین کو چار کرنے والا‘‘ ہونے سے یہ مراد ہے کہ مکہ، مدینہ اور قادیان کے بعد چوتھا مرکز آپؓ کے ذریعہ سے قائم کیا جائے گا۔
محترم چودھری غلام حسین صاحب کی وفات مارچ 1950ء میں جھنگ شہر میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “محترم چودھری غلام حسین صاحب

  1. چودھری غلام حسین صاحب مرحوم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم کے چچا نہیں بلکہ تایا تھے.

اپنا تبصرہ بھیجیں