محترم چودھری غلام حیدر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍فروری 2000ء میں محترم چودھری غلام حیدر صاحب کا مختصر ذکر خیر مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم چودھری صاحب 1943ء میں لاہور کے ایک ہوٹل میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھے تھے اور مجلس احرار کے پُرجوش کارکن تھے۔ آپ نے اپنے دوست سے ذکر کیا کہ مجلس احرار کو قادیان میں جامع مسجد کی تعمیر کے لئے مَیں نے دل کھول کر چندہ دیا ہے۔ دوست نے مذاق سے کہا کہ آپ پھر اس مسجد کو ضرور دیکھ کر آئیں۔ آپ نے جوش سے کہا کہ ہاں مَیں ضرور دیکھ کر آؤں گا اور واپس آکر تمہیں بتاؤں گا۔ آپ کے بڑے بھائی مکرم چودھری غلام حسین صاحب اوورسیئر کافی دیر پہلے احمدی ہوکر قادیان میں آباد ہوچکے تھے۔ چنانچہ آپ نے یہ سوچ کر قادیان کا سفر اختیار کیا کہ مسجد بھی دیکھ لوں گا اور بھائی سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔
قادیان پہنچ کر چودھری صاحب نے احرار کی مسجد کے بارہ میں پوچھنا شروع کیا لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ آخر آپ اپنے بھائی کے گھر پہنچے۔ جب بھائی کو بتایا کہ قادیان آمد کا اصل مقصد احرار کی مسجد کو دیکھنا ہے تو آپ کے بھائی آپ کو گندے پانی کے جوہڑ پر لے گئے جس کے قریب دو مکانوں کے بیچ سوا مرلہ کا ایک تکون پلاٹ تھا جس کا کچھ حصہ چھتنے کے بعد چند فٹ کا صحن بچا ہوا تھا۔ مسجد کا دروازہ کھلا تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر آپ نے نہ صرف قبولِ احمدیت کی توفیق پائی بلکہ سرکاری نوکری چھوڑ کر زندگی خدمت دین کے لئے وقف بھی کردی۔ 1944ء میں آپ کو قادیان بلالیا گیا۔
وقف کے دوران آپ کو بے شمار خدمات کی توفیق ملی جن کا ذکر تاریخ احمدیت جلد نہم اور جلد دہم میں موجود ہے۔ آپ تعلیم الاسلام کالج میں سینئر لیکچرار اسسٹنٹ رہے اور ناظم املاک و تعمیر کالج کے طور پر بھی خدمت بجا لاتے رہے۔ اسی طرح فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تعمیر اور لیبارٹری فٹنگ میں بھی حصہ لیا۔ ہجرت کے وقت ریسرچ کا بہت سا سامان آپ کی ہمت سے پاکستان پہنچا اور لاہور میں تعلیم الاسلام کالج کی عمارت کی درستی اور سائنسی سامان تیار کرنے میں آپ نے بہت محنت اور اخلاص سے کام کیا۔ پھر کالج کے سامان کو دوسری جگہوں پر منتقل کرتے ہوئے آخر ربوہ لایا گیا۔ یہ نہایت احتیاط طلب کام تھا جس کو آپ نے بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا اور نازک سائنسی سامان کو قطعاً نقصان نہ پہنچا۔ 1962ء تک آپ کے پاس تعمیر کالج، ناظم املاک، انچارج ٹیوب ویل، انچارج گیس پلانٹ اور دیگر بہت سے کام تھے اور آپ کی کارکردگی ہر لحاظ سے خوشکن تھی۔
کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ ربوہ کی گندم کمیٹی کے رُکن بھی رہے اور احساس ذمہ داری سے یہ فرض بجالاتے رہے۔ آپ کے ایک بیٹے جو کسٹم و ایکسائز میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے، آپ کی زندگی میں وفات پاگئے اور آپ کی اہلیہ بھی آپ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں۔ آپ نے ان صدمات کو نہایت صبر سے برداشت کیا۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل بوجہ فالج بیمار ہوئے۔ وفات کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودۂ خاک ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں