محترم چودھری غلام نبی علوی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍مئی 2005ء میں مکرم شریف احمد علوی صاحب اپنے والد محترم چودھری غلام نبی علوی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 1908ء میں ضلع ہوشیار پور کے گاؤں بچھواں میں پیدا ہوئے۔ ابھی بچہ تھے اور ایک مولوی صاحب سے قرآن کریم پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ آپ کے والد نے چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کے قریب زمین خرید لی اور آپ کو بھی ہمراہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے یہ بات اپنے استاد کو بتائی تو وہ افسردہ لہجے میں کہنے لگے کہ ’’تمہارے میاں جی زمین آباد کرنے کی بیکار تکلیف کررہے ہیں۔ جلدہی حضرت امام مہدی کا ظہور ہوجائے گا۔ وہ اتنے خزانے تقسیم کریں گے کہ لینے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ یہ بات آپ کے ذہن میں نقش ہوگئی۔
چیچہ وطنی کا وہ گاؤں نیا نیا بنا تھا۔ کچھ عرصہ بعد نزدیکی گاؤں میں ایک پرائمری سکول کھل گیا تو آپ زیادہ عمر ہونے کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں وہاں پڑھتے رہے۔ البتہ اس کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ آپ کے گاؤں میں ایک احمدی باجوہ خاندان (چوہدری نذیر احمد باجوہ سابق امیر ضلع ساہیوال) کا وسیع رقبہ تھا۔ ایک دن ایک احمدی دوست نے آپکو ’’کشتی نوح‘‘ پڑھنے کیلئے دی۔ اسے پڑھ کر آپ کو یقین ہوگیا کہ یہ کسی دنیا دار آدمی کی تحریر نہیں۔
1932ء میں ایک دن آپ اپنے چھوٹے بھائی محترم عطا محمد علوی صاحب کے ہمراہ غلہ فروخت کرنے چیچہ وطنی غلہ منڈی آئے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ احمدیوں کے ساتھ مولوی صاحبان کا مناظرہ ہورہا ہے۔ دونوں بھائی اپنی بیل گاڑی کو منڈی میں چھوڑ کر مناظرہ سننے کے لئے پہنچ گئے۔ مناظرہ کے بعد واپسی پر دونوں نے فیصلہ کرلیا اور گاؤں آکر اُس دوست سے ملے جس نے آپ کو ’’کشتیٔ نوح‘‘ دی تھی اور اپنی بیعت کا خط لکھ دیا۔ یہاں سے ان دو بھائیوں کے لئے سخت آزمائش کا دَور شروع ہوگیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ دونوں بھائیوں کو زمینوں سے بے دخل کر کے خالی ہاتھ گھر سے نکال دیا جائے گا۔ آپ کے سسرال والوں نے (ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی) رشتہ سے انکار کر دیا۔ والد نے ان دونوں بیٹوں کو عاق کرنے کے لئے مشورہ شروع کر دیا۔ اس صورت حال میں دونوں نے کسی دوسرے زمیندار کی زمین کی بٹائی پر کاشت بھی شروع کر دی۔ اِن کے والد کو کسی نے مشورہ دیا کہ فی الحال ان کو عاق نہ کریں اور نہ ہی گھر سے نکالیں البتہ خرچہ اور پیسے نہ دیں، صرف روٹی کے عوض آپ کو دوکام والے افراد میسر ہیں۔ ان سے کام لیتے رہیں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو عاق بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اسی تجویز پر عمل ہوا اور دونوں بھائی اپنے والد کی زمین کے علاوہ اپنی بٹائی والی زمین پر بھی کام کرتے رہے۔ یہ زمین اگرچہ ناقص تھی تاہم دونوں کی دعا اور محنت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ریکارڈ پیداوار ہوئی۔ پھر آپ نے مونجی کی فصل بٹائی کے بعد فروخت کی۔ قادیان جلسہ کے اخراجات اور کتابوں کی خرید کے لئے رقم رکھ کر باقی ساری رقم چندے میں ادا کر دی۔
گاؤں کے ایک مولوی نے ایک بار ایک پہلوان کو بلاکر کہا کہ اگر احمدیت سچی ہے تو اس پہلوان سے کشتی جیت کر دکھادو۔ جب آپ کو وہاں بہت زچ کیا گیا تو آپ مجبوراً تیار ہوگئے۔ کشتی شروع ہوتے ہی آناً فاناً آپ نے پہلوان کو اٹھاکر زمین پر دے مارا۔ اس بات کی آپ کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ سب کیسے ہوگیا۔
کچھ عرصہ بعد ایک احمدی گھرانہ میں آپ کی شادی ہوگئی اور قریباً 1938ء میں آپ ضلع نواب شاہ سندھ کے ایک گاؤں میں آکر آباد ہوگئے اور ایک زرعی رقبہ خرید کر آباد کیا۔تب تک سب بہن بھائی احمدیت قبول کر چکے تھے۔
آپ نے تربیت کی خاطر اپنی اولاد کو ربوہ بھجواکر تعلیم دلوائی۔ اپنے بڑے بیٹے (مضمون نگار) کو پیدائش سے پہلے وقف کیا اور B.A. تک تعلیم دلوا کر جامعہ احمدیہ میں داخل کروایا۔ ہر سال جلسہ سالانہ پر آتے۔ ابتداء میں ہی وصیت کے نظام میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ ہر تحریک میں حصہ لیتے۔ بیوت الحمد کے خصوصی معاونین کی تحریک میں ایک لاکھ روپیہ چندہ ادا کیا۔ جب تک گوٹھ امام بخش سندھ میں رہے وہاں صدر جماعت کے طور پر خدمات انجام دیں۔ مئی جون کے مہینے میں بھی گندم کی کٹائی اور گہائی میں روزے پورے کرتے۔ آپ کا شمار سندھ کے مثالی کاشتکاروں میں ہوتا تھا۔ ابتداء میں جب دُور دُور تک طبی سہولتیں میسر نہ تھیں آپ شہر سے دوائیاں وغیرہ لاکر گھر میں رکھتے اور غریب لوگوں کا مفت علاج کرتے۔ 1972ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔
1990ء میں اپنی زمینیں بچوں میں تقسیم کر کے خود ربوہ آگئے۔ جہاں 26؍دسمبر 2004ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔