محترم چودھری محمد اسحاق صاحب سابق مبلغ چین و ہانگ کانگ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍جولائی 2002ء میں محترم چودھری محمد اسحاق صاحب سابق مبلغ چین و ہانگ کانگ کے خودنوشت حالات زندگی شائع ہوئے ہیں۔ آپکی وفات یکم دسمبر 2002ء کو لاہور میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔
آپ 31؍جولائی 1915ء کو ضلع سیالکوٹ کے گاؤں منگولے کے زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے۔ گاؤں کے امریکن سکول سے چوتھی اور پھر احمدیہ مڈل سکول گھٹیالیاں سے مڈل کیا۔ میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے کیا۔ جس کے بعد دمہ کی تکلیف کے باعث مزید تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ تاہم اپنے گاؤں میں رہتے ہوئے، بیماری کے دوران ہی، حضرت مصلح موعودؓ کا ’’وقف زندگی کی تحریک‘‘ سے متعلق خطبہ پڑھ کر آپ نے اپنی زندگی وقف کردی اور اپنے خط کے آخر میں آپ نے لکھا: ’’کاش مَیں قادیان میں ہوتا تو وقف کرنے میں سابقون میں سے ہوتا‘‘۔ حضورؓ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’وہ لوگ جو قادیان سے باہر ہیں، میری آواز پر فوراً بول پڑے ، اُن کے برابر ہیں جو قادیان میں ہیں اور فوراً آگے آئے‘‘۔
1935ء کے اوائل میں آپ کا انٹرویو ہوا اور بطور انگریزی دان مربی آپ کو منتخب کرلیا گیا۔ 27؍ستمبر 1937ء کو آپ ہانگ کانگ اور چین جانے کے لئے قادیان سے روانہ ہوئے تو حضورؓ نے ریلوے اسٹیشن پر تشریف لاکر آپ کو رخصت فرمایا۔ روانگی سے ایک روز قبل ایک خط میں حضورؓ نے آپ کو جو نصائح کیں، اُن میں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی محبت سب اصول سے بڑا اصل ہے، اس میں سب خیر اور سب برکت جمع ہے۔ جو سچی محبت اللہ تعالیٰ کی پیدا کرے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا، کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا …‘‘
آپ نے ہانگ کانگ اور چین میں ساڑھے تین سال تک خدمت کی توفیق پائی۔ چینی اور انگریزی زبانوں میں کئی کتابچے اور پمفلٹ شائع کئے۔ ایک کثیرالاشاعت اخبار نے آپ کا تفصیلی انٹرویو بھی شائع کیا۔ کتب کی اشاعت میں محترم سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے بہت مدد کی۔ مرکز کی طرف سے آپ کو صرف 35؍روپے ماہوار ملتے تھے اور حکم تھا کہ خود کماکر اخراجات پورے کریں جبکہ آپ کے مکان کا کرایہ ہی ایک سو ڈالر تھا اور آپ کو صرف زمینداری کا کام آتا تھا۔ آپ نے ایک سکول میں داخلہ لے لیا تاکہ تجارتی اصولوں سے کچھ شدھ بدھ ہوجائے۔ سکول میں بمبئی کے ایک طالبعلم کاؤس جی سے آپ کی دوستی ہوگئی جو کروڑپتی باپ کے بیٹے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُن کے اصرار پر آپ نے اُن کے کاروبار کا حساب کتاب رکھنا شروع کیا اور اُنہوں نے ازخود اپنی تجارت میں آپ کو حصہ دار بناکر منافع میں سے معقول رقم دینا شروع کردی جس کے بعد آپ کو مالی مشکلات سے نجات مل گئی۔ کاؤس جی کو اردو، انگریزی اور چینی زبانوں پر عبور تھا اور اُن کی ترجمانی کی مدد سے آپ چینیوں کے ساتھ تبلیغی نشستیں کیا کرتے تھے۔ جب جنگ کے نتیجہ میں ہانگ کانگ کو جاپانیوں نے تباہ کردیا تو کاؤس جی کبھی پا پیادہ اور کبھی کسی سواری پر سوار ہوکر مغربی چین اور تبت کے راستے ہندوستان پہنچے اور پھر بمبئی میں دو سو روپیہ ماہوار پر ملازمت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
ہانگ کانگ میں مقیم کئی چینیوں اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والوں نے آپ کی دعوت الی اللہ کو قبول کیا۔ اسی طرح چک سکندر کے ایک نوجوان جمال دین صاحب بھی احمدی ہوگئے جو فوج میں ملازم ہوکر ہانگ کانگ گئے تھے۔ جب فوج میں کئی افراد احمدی ہونے لگے اور کچھ مزید احمدی ہندوستان سے بھی آگئے تو مخالفت بھی شدید ہونے لگی۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار جب مَیں دورہ سے واپس آیا تو علم ہوا کہ فوج کے تمام احمدیوں کو فارغ کرکے ہندوستان بھجوادیا گیا ہے۔ مَیں نے جاکر جرنیل سے بات کی کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ اُس نے کہا کہ شدید اختلافات کے ہوتے ہوئے ہم جاپانیوں کے حملہ کا مقابلہ کیسے کرسکتے تھے۔ اس پر آپ نے جوش سے کہا کہ جب حملہ ہوگا تو احمدیوں پر ظلم کی پاداش میں تم تین دن بھی مقابلہ نہیں کرسکوگے۔ اُسی رات آپ کو بھی گرفتار کرکے بحری جہاز کے ذریعہ واپس بھیج دیا گیا۔ دس دن بعد جب آپ قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ جاپانیوں نے ہانگ کانگ کو تباہ کردیا ہے اور انگریزوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ چند دن بعد پولیس نے آپ کو گرفتار کرکے سیالکوٹ جیل میں منتقل کردیا۔
جیل میں صبح کے وقت ایک سپاہی پیغام لایا کہ اسسٹنٹ صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے اُن سے کوئی کام نہیں ہے، اُنہیں کوئی کام ہے تو خود تشریف لائیں۔ چنانچہ اسسٹنٹ صاحب فوراً ہی تشریف لے آئے اور فرمایا کہ آپ کے ریکارڈ میں لکھا ہے کہ آپ احمدی ہیں اور اس لئے مَیں نے ناشتہ تیار کراکے میز پر لگوادیا ہے۔ … یہ مکرم چودھری غلام مرتضیٰ صاحب تھے جو بیرسٹری کرنے کے بعد سیالکوٹ جیل میں اسسٹنٹ کے عہدہ پر ملازم ہوئے۔ بعد میں انہوں نے زندگی وقف کردی اور لمبا عرصہ تحریک جدید میں خدمت کی توفیق پائی۔
ایک ہفتہ جیل میں رکھنے کے بعد آپ کو اپنے گاؤں میں رہنے کا پابند کرکے رہا کردیا گیا۔ اس دوران آپ نے اپنی زمینداری کے کام پر بھرپور توجہ دی ۔ 10؍اکتوبر 1945ء کو یہ پابندی ختم ہوئی اور حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو بطور مربی بمبئی بھیج دیا۔ تقسیم ملک کے وقت آپ نے قادیان میں رہنے کے لئے اپنا نام پیش کیا تھا لیکن حضورؓ نے آپ کو پاکستان بلالیا جہاں آپ نے تحریک جدید میں بطور سپرنٹنڈنٹ کام کیا۔ شروع میں کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ کارکنان کو سردیوں میں بھی گرم بستر میسر نہ تھے۔ حضورؓ نے آپ کی یہ درخواست منظور فرمائی کہ آپ اپنے والد صاحب کے توسط سے اپنے علاقہ سے گرم بستر جمع کرکے جماعتی نظام کے ذریعہ تقسیم کرادیں۔ چنانچہ آپ نے دو سو بستر فراہم کئے۔
1954ء میں جب کنری میں جماعت کی زمین پر مخالفین نے ناجائز قبضہ کرلیا تو حضورؓ کے ارشاد پر آپ نے زمین کو بازیاب کروایا۔ پھر آپ کو ارشاد ہوا کہ وہ کراچی جاکر اُس مشینری کی فروخت کا انتظام کریں جو تیل کی فیکٹری لگانے کے لئے ایک لاکھ روپیہ میں منگوائی گئی تھی اور اب فیکٹری لگانے کا منصوبہ ختم ہونے کے بعد بیکار پڑی تھی۔ آپ نے اس مشینری کو سوالاکھ روپیہ میں فروخت کردیا جس پر آپ کو نقد انعام دیا گیا۔
آپ کو بطور آڈیٹر بھی کئی نظارتوں میں خدمت کی توفیق ملی۔ 1963ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے ربوہ کے نواح میں زرعی اراضی خرید کر زمینداری شروع کردی۔ پھر ربوہ میں مکان بھی تعمیر کروائے اور دارالبرکات کی مسجد کی تعمیر میں نمایاں خدمت کی توفیق بھی پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں