محترم چودھری محمد حسین صاحب (والد محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍دسمبر 1998ء میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے والد محترم چودھری محمد حسین صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم عبدالرشید صاحب رقمطراز ہیں کہ محترم چودھری صاحب کے سمجھانے کا انداز منفرد تھا جو بہت متاثر کرتا تھا۔ آپ کو ذیابیطس کا عارضہ تھا جس کیلئے روزانہ انسولین کا ٹیکہ لگانا ہوتا تھا۔ مَیں نے اس مقصد کے لئے ایک غیرازجماعت دوست کی خدمات حاصل کیں جواپنے کلینک سے روزانہ آتے اور آپ کو ٹیکہ لگاتے۔ قریباً ایک ماہ بعد آپ نے اُن دوست کی مالی خدمت کرنا چاہی تو انہوں نے عرض کیا کہ اُنہیں صرف آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ جب چودھری صاحب کو احساس ہوا کہ وہ اپنے کلینک سے غیرحاضر ہوکر صرف ٹیکہ لگانے کیلئے آتے ہیں تو آپ نے مجھ سے پوچھا کہ آپکو ٹیکہ لگانا تو آتا ہوگا؟۔ … مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آتا تو ہے مگر کوالیفائیڈ نہیں ہوں۔ بہرحال یہ سعادت پھر میرے حصہ میں آگئی۔ چند روز بعد چودھری صاحب فرمانے لگے ’’آپ میری بہت خدمت کر رہے ہیں، میں بھی آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ خاکسار نے یہ سوچتے ہوئے کہ کوئی مالی مدد کریں گے، روایتی معذرت پیش کی تو آپ نے بڑے دل موہ لینے والے انداز میں فرمایا ’’مجھ سے خدمت تو پوچھو‘‘ اور ساتھ ہی فرمایا ’’آپ کو قرآن مجید کتنا یاد ہے؟‘‘۔ عرض کی ’’پانچ چھ سورتیں‘‘۔… اگلے روز آپ نے مجھے ایک کاغذ پر کچھ سورتوں کے نام اس خواہش کے ساتھ لکھ کر دئے کہ انہیں حفظ کیا جائے۔ دو تین روز تک خاکسار حفظ نہ کرسکا اور روزانہ آپ کے استفسار پر کوئی نہ کوئی عذر پیش کرتا تو آپ نے ناراضگی کے لہجے میں فرمایا ’’کل سے آپ مجھے ٹیکہ لگانے کی زحمت نہ کریں کیونکہ اگر آپ کو میری یہ خدمت قبول نہیں تو پھر مجھے بھی آپ کی کوئی خدمت قبول نہیں‘‘۔ میں نے بڑی منت سماجت کے ساتھ وعدہ کیا کہ آئندہ کوتاہی نہیں ہوگی۔ پھر چاروناچار ایک ایک آیت کرکے سورۃ الاعلیٰ یاد کرنی شروع کی۔ جب ساری سورۃ یاد ہوگئی تو آپ نے فرمایا کہ آج باقاعدہ کھڑے ہوکر تلاوت کے انداز میں سنائیں۔ مَیں جونہی کھڑا ہوا ساری سورۃ کلیّۃً ذہن سے نکل گئی جیسے کبھی حفظ ہی نہ کی ہو۔ اس طرح آپ نے تلاوت میں عمومی حالت اور اہتمام کا فرق سمجھایا جس کا پہلے تجربہ نہ تھا۔
بعد ازاں جب آپ کو علم ہوا کہ مَیں نے ترجمہ تو یاد کیا ہی نہیں تو آپ نے فرمایا کہ ’’اگر آپ کو کوئی دوست آپ کو غیرزبان میں خط لکھے تو جب تک آپ سارا شہر پھر کر ایسے شخص سے جو اس زبان سے واقف ہو خط سن کر اطمینان حاصل نہ کرلیں، چین سے نہیں بیٹھیں گے اور قرآن کریم سے یہ سلوک …‘‘۔ پھر ترجمہ بھی یاد کیا اور ایک موقعہ پر جب خاکسار تیزی سے سورۃ پڑھ گیا تو فرمانے لگے کہ حلوہ کھاتے ہوئے کیا گولے بناکر حلق میں اتار لیتے ہو یا زبان کی نوک سے حلق سے اترنے تک مزہ لیتے ہو۔
حضرت چودھری صاحب کو اپنوں اور غیروں کی تربیت کی یکساں تمنا تھی۔ چنانچہ آپکی رہائشگاہ کے قریب واقع گرلز سکول میں جب بچیاں سکول آتی تھیں تو بعض کے دوپٹے سر کی بجائے گلے میں لٹک رہے ہوتے تھے۔ آپ صبح صبح اپنی اہلیہ کے ساتھ جو ترکی برقعہ میں ہوتیں سیر کر رہے ہوتے۔ اکثر بچیوں کو سمجھاتے۔ یہ بھی بتاتے کہ دوپٹہ گلے کی بجائے سرپر ہونا چاہئے اور مثال پیش کرتے کہ میرے ساتھ یہ میری بیوی ہے جو ڈاکٹر عبدالسلام کی والدہ ہے، عمر کے لحاظ سے پردہ ان پر واجب بھی نہیں رہا مگر چونکہ چھوٹی عمر سے ہی اس دینی شعار کی پابند ہیں اس لئے لندن میں گھر سے باہر نکلتے ہوئے پردہ کیلئے یہی برقعہ استعمال کرتی تھیں۔ چنانچہ آپ کی نیک نصیحت کے اثر سے بچیوں کی ایک بڑی تعداد آپ کو دور ہی سے دیکھ کر اپنے سر ڈھانپ لیا کرتی تھی۔
ایک دفعہ ایک سرکاری افسر نے حضرت چودھری صاحب کی دعوت کی۔ آپ اُس کی رہائشگاہ پر پہنچے تو وہ صاحب بعض انتظامی امور میں مصروف ہوگئے۔ اسی دوران بنگلہ کا مالی وہاں آگیا۔ آپ نے اس سے تعارف حاصل کیا اور مختلف درختوں کے بارہ میں پوچھنے کے بعد سوال کیا کہ کیا اُسے کلمہ اور اس کا ترجمہ آتا ہے۔ مالی نے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا تو آپ نے اسے باور کرایا کہ ایک جب خداتعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی تو وہاں درختوں کے بارہ میں نہیں پوچھا جائے گا لہٰذا اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے… جب افسر فارغ ہوکر وہاں پہنچا تو آپ نے کچھ گفتگو کے بعد اُن سے پوچھا کہ جو عملہ بنگلہ میں رہتا ہے ، ان کی بہبود کے بارہ میں آپ کے کیا فرائض ہیں… اور پھر انہیں توجہ دلائی کہ وہ بنگلہ کے انچارج ہونے کے ناطے اس کے عملہ کی روحانیت کے بھی ذمہ دار ہیں اور اس کے لئے ایک دن جوابدہ ہوں گے۔