محترم چودھری محمد صادق صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 جون 2010ء میں شامل اشاعت مضمون میں مکرم محمد محمود طاہر صاحب مربی سلسلہ نے اپنے والد محترم چودھری محمد صادق صاحب (واقف زندگی) کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
محترم چوہدری محمدصادق صاحب کے والد محترم الحاج میاں پیر محمد صاحب (آف مانگٹ اونچا) نے 1904ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی تھی لیکن زیارت نہ کرسکے اور 1910ء میں حضرت خلیفہ اوّلؓ کی دستی بیعت کی۔ آپ عارف باللہ وجود تھے اور حضرت مسیح مو عودؑ کی کتب کا گہرا مطالعہ تھا۔ احمدیہ مسجد کے امام الصلوٰۃ اور گاؤں کے امین تھے۔ زراعت اور کارو بار ذرائع آمدنی تھے۔ حج کرنے کی سعادت بھی ملی۔ 1989ء میں سو سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
محترم چودھری محمد صادق صاحب کی والدہ محترمہ زینب بی بی صاحبہ پیدائشی احمدی تھیں۔ حضرت میاں فتح دین گوندل صاحبؓ کی بیٹی اور حضرت میاں امام الدین صاحب پیرکوٹیؓ کی نواسی تھیں۔ سالہاسال تک بچوں کو قرآن پڑھایا۔ جنوری 1974ء میں اپنے بڑے بیٹے الحاج مولوی محمد شریف صاحب (واقف زندگی) کے ہمراہ مناسک حج کی ادائیگی کی توفیق ملی۔ اس موقعہ پر ایک معاند کی شکایت پر ماں اور بیٹا دونوں ارض حجاز میں اسیر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی فضل کے نتیجہ میں رہائی ہوئی۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔ مانگٹ اونچا میں ان کا مکان ہی مربی ہاؤس کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
محترم چودھری محمد صادق صاحب 26دسمبر 1929ء کو مانگٹ اونچا میں پیدا ہوئے۔ آپ کُل پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ والدین نے اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی اور بچوں کو قادیان بھی بھجواتے رہے۔ چنانچہ آپ نے پرائمری پاس کر لی تو جلسہ سالانہ قادیان 1941ء کے موقع پر آپ کے والد آپ کو پہلی بار قادیان لائے۔ جہاں حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کی سعادت بھی پائی۔ والد نے قادیان میں پانچ مرلے زمین لے کر ایک کمرہ بنالیا تھا جہاں آپ کے دو بڑے بھائی پہلے سے رہتے تھے۔ آپ بھی مدرسہ احمدیہ کی پہلی کلاس میں داخل ہو گئے۔ مدرسہ میں تین جماعتیں پاس کیں اور پھر مڈل کرکے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں داخل ہوکر جون 1947ء میں میٹرک کیا اور زندگی وقف کردی۔ اُن ایام میں قادیان کی حفاظت کی ڈیوٹی بھی دیتے رہے اور اکتوبر 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ لائلپور زرعی کالج سے دو سالہ ڈپلومہ کرلیں تاکہ اراضیات سندھ میں کام کے قابل ہوجائیں۔ لیکن ابھی داخلہ نہیں ملا تھا کہ جنوری 1948ء میں آپ کی تقرری سندھ میں تحریک جدید کی زمینوں پر بطور اکاؤنٹنٹ ہوگئی۔
قیام سندھ کے دوران بہت مشکل حالات میں خدمات کی توفیق پائی۔ پورے عرصہ قیام میں بجلی کی سہولت بھی نہ تھی۔ پانی کی مشکلات، سفر اور بچوں کی پڑھائی کے لئے بھی سخت حالات کا سامنا کیا۔ لیکن اپنے وقف کو خوب نبھایا۔ دفتری فرائض کے علاوہ قریباً نصف صدی تک بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق پائی۔ 31 سال بعد 1978ء میں وکالت تبشیر ربوہ میں تبادلہ ہوا جہاں جون 2002ء تک خدمت کا موقع ملا۔ یوں 55سال خدمت کی توفیق پانے کے بعد آپ ریٹائرہوئے۔ ربوہ میں قیام کے دوران انصاراللہ مقامی ربوہ میں بھی 22 سال تک منتظم مال اور بعد ازاں دو سال نائب قائد مال بھی رہے۔ خلیفۂ وقت کی لندن ہجرت کے بعد حضور کی آڈیو کیسٹس دیگر اہل محلہ کو پہنچانے کا انتظام بھی آپ کے پاس تھا۔
آپ جلسہ سالانہ کا خصوصی اہتمام کرتے اور سارا سال اس کے لئے بچت کرتے رہتے۔ 1991ء کے تاریخی جلسہ قادیان میں بھی شامل ہوئے۔ 1996ء میں بطور نمائندہ تحریک جدید جلسہ سالانہ برطانیہ اور جرمنی میں شامل ہوئے اور پھر سالہاسال تک جلسہ سالانہ برطانیہ میں ذاتی طور پر شرکت کی توفیق پاتے رہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 14مارچ1952ء کو خطبہ جمعہ سے قبل محمدآباد سندھ میں آپ کے نکاح کا اعلان محترمہ صادقہ ثریا بیگم صاحبہ بنت محترم مولوی محمدعبداللہ صاحب پیر کوٹی کے ساتھ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا۔ بوقت وفات اہلیہ اور بچوں کے علاوہ 45 پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور 5 پڑپوتے پڑپوتیاں آپ نے یادگار چھوڑیں۔
عبادات میں خصوصی شغف، جماعتی خدمات میں ہمہ تن مصروفیت، مسکراتے چہرے کے ساتھ سب سے ملاقات، حسن معاشرت ، خلافت کی آواز پر والہانہ لبیک اور قرآن کریم سے پیار آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔ فرض نمازوں کا باجماعت کے علاوہ تصور بھی نہ تھا۔ نمازوں کی حفاظت اور ان کی فکر اور اپنے اہل و عیال کو ہر وقت اس کی تلقین کرنا آپ کا روز کا معمول تھا۔ نماز تہجد اور دیگر نوافل عبادات کا بھی التزام تھا۔ تہجد آغاز جوانی سے باقاعدگی سے ادا کرتے رہے اور آخر تک التزام رہا۔ وفات سے تقریباً ایک سال قبل آپ پر بیماری کا سخت حملہ ہوا۔ اس سے ایک دو دن پوری طرح شعوری کیفیت نہ تھی۔ جونہی حالت شعور میں آئے تو میں ہسپتال میں آپ کے پاس موجود تھا۔ آپ نے فوراً کہا ’’میری تو نمازیں ضائع ہو گئیں‘‘۔ اسی وقت آپ نے نماز ادا کرنی شروع کردی۔ اس قسم کی کیفیت کا مشاہدہ بیماری میں کئی دفعہ کیا گیا۔ بیماری کی وجہ سے آخری ایام میں مسجد نماز کے لئے نہ جا سکتے تھے تو نماز باجماعت سے محرومی کا بہت احساس تھا۔ بسااوقات کہتے کہ مجھے بھی جماعت کروا دیں۔ ان کی خاطر کئی دفعہ گھر میں باجماعت نماز کروائی۔ اشراق اور چاشت کے نوافل بھی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔
نماز فجر کے بعد اونچی آواز میں تلاوت قرآن کریم کرتے تھے۔ رمضان میں تو قرآن کریم کے کئی دَور ختم کرتے تھے۔ رمضان کے علاوہ شوال کے روزے بھی رکھا کرتے۔ اپنے بچوں کو بھی بچپن سے روزوں کی عادت ڈال دی تھی۔ آ پ نے اللہ کے فضل سے 75سال کی عمر تک پورے رو زے رکھے۔ رمضان میں متعدد بار اعتکاف کی سعادت حاصل کی۔ نماز تراویح کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ آپ کی زندگی کے آخری رمضان سے پہلے آپ کے پوتے نے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی اس پر بہت خوش تھے۔
مالی قربانی میں گنجائش سے بڑھ کر حصہ لیتے۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے جب تحریک جدید اور و قف جدید کے مالی سال کا اعلان ہوتا تو خطبہ کے فوراً بعد پورے سال کے چندہ کی رسید کاٹ دیتے تھے۔ بچوں کی طرف سے ملنے والے ہدیہ کی رقم سے بھی باقاعدگی کے ساتھ بمطابق شرح حصہ کی ادائیگی کرتے۔ اسی طرح تزکیہ اموال کی مد میں بھی التزام کے ساتھ اپنے اندوختہ سے ادائیگی فرماتے تھے۔ کئی مستحق لوگوں کی امداد کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا۔
ریٹائر منٹ کے بعد آپ نے مصروفیت کے کئی طریق اختیار کئے۔ عبادات میں زیادہ وقت صرف کرنا شروع کیا۔ گھر میں باغبانی شروع کر دی اور مطالعہ کتب میں تیزی آ گئی۔ 19و 20 اکتوبر2009ء کی درمیانی شب 80سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت لندن میں نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔