محترم چودھری نصیر احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍مئی 1997ء میں محترم چودھری نصیر احمد صاحب مرحوم کا ذکرِخیر کرتے ہوئے مکرم ملک سلطان احمد صاحب لکھتے ہیں کہ 1963ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی وفات ہوئی تو محترم چودھری نصیر احمد صاحب کے ایک دوست مکرم چودھری ضیاء الحق صاحب نے انہیں بتایا کہ وہ ربوہ جا رہے ہیں۔ آپ نے دریافت کیا کہ کیا میں بھی آسکتا ہوں۔ جواب اثبات میں ملا توآپ بھی اپنی کار میں ربوہ پہنچے جہاں لوگوں کی طویل قطار میں لگ کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے چہرہ کی زیارت کی تو آپ کے دل نے فوراً گواہی دی کہ ایسے چہرے جھوٹے لوگوں کے نہیں ہوتے۔ اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد قبول احمدیت کی سعادت پائی اور ساتھ ہی آپ کی زندگی میں ایک انقلاب آگیا۔ایک طرف سگریٹ نوشی اور سینما بینی چھوڑ دی اور دوسری طرف تہجد کی ادائیگی میں باقاعدگی اختیار کی اور مالی قربانی کی نمایاں توفیق پانے لگے۔
آپ کے عزیزان نے آپ کے قبول احمدیت کی بہت مخالفت کی اور آخری حربہ کے طور پر آپ کی والدہ محترمہ کو اس بارہ میں کوشش کرنے کو کہا۔
آپ کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی اورآپ ان کی خدمت اور احترام کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ایک روز موقعہ پاکر انہوں نے خاندان کی مخالفت کا ذکرکرکے آپ کی احمدیت چھوڑنے کے بارے میں رائے لی تو آپ نے اپنے گھر، کار اور کاروبار کی چابیاں ان کے سامنے رکھتے ہوئے نہایت ادب کے ساتھ کہا کہ میں نے کئی سال تحقیق کی ہے اور اب اس سے پیچھے ہٹنا میرے لئے ہلاکت ہے۔ مجھ سے میرا سب کچھ لکھوالیں اور میرے رشتہ داروں کو دیدیں ، خاکسار مزدوری کرکے دو وقت کھانے کا نتظام کرلے گا لیکن احمدیت کو چھوڑنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے، آپ کی فرمانبرداری میرا فرض ہے لیکن یہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے اس میں کبھی آپ کی بات نہیں مان سکتا۔
محترم چودھری نصیر احمد صاحب نے اپنی دکان کے اوپر ایک کمرے میں نماز باجماعت کا انتظام کر رکھا تھا اور وہاں پر سلسلہ کی کتب کا بھی بہت عمدہ انتظام کیاہوا تھا۔ مہمان نوازی کا جذبہ آپ میں بہت اعلیٰ پایا جاتا تھا۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جب میں ہڈیارہ کے مقام پر بطور معلم وقف جدید کام کر رہا تھا تو ایک دفعہ محترم چودھری صاحب نئی گاڑی خریدکر سیدھے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا ’’میں نے نئی گاڑی خریدی ہے سوچا پہلا سفر دعوت الی اللہ کا آپ کے ساتھ کروں‘‘ ۔ چنانچہ اس روز سارا دن دیہات میں تربیتی کاموں میں گزارا۔