محترم چوہدری منیر احمد عارف صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جون 2007ء میں مکرم محمد محمود طاہر صاحب نے محترم چوہدری منیر احمد صاحب عارف کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا کہ جلسہ سالانہ ربوہ کے مواقع پر آپ ناظم لنگر خانہ اور ناظم ریزرو کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ حلقہ کوارٹرز تحریک جدید میں آپ بطور صدر محلہ بھی خدمات بجالاتے رہے۔
اپنے بچوں کے ساتھ آپ کا دوستانہ تعلق تھا۔ آپ نے گھر میں رنگ کا نیٹ لگایا ہوا تھا اور عصر تا مغرب بچوں کے ساتھ رنگ کھیلتے اور دوستانہ انداز میں ان کی تربیت فرماتے۔ تاہم نمازوں کے حوالے سے سخت پابندی کرواتے اور اس بارے میں نرمی نہ تھی۔ آپ کے بیٹے مکرم نصیر احمد صاحب عارف سابق نیشنل سیکرٹری وقف نو اور سابق نائب صدر خدام الاحمدیہ جرمنی جب جرمنی گئے تو اُنہیں اپنے والد کا خط ملا جس میں جماعتی خدمت کے حوالہ سے پوچھا گیا تھا۔ اِنہوں نے جواب میں لکھا کہ ابھی مجھے زیادہ خدمت کی توفیق نہیں مل رہی۔ اس پر محترم مولانا صاحب نے لکھا: ’’یاد رکھو اگر تم جماعت کے ہو تو ہمارے بھی ہو۔ اگر جماعت کے نہیں تو ہمارے بھی نہیں‘‘۔ اس واقعہ سے آپ کی جماعت کے ساتھ محبت اور اپنے بچوں کی خدمت دین کے بارہ میں خواہش کا اندازہ ہوتا ہے۔
محترم عارف صاحب کے والد نے آپ کی تربیت کس انداز سے کی تھی، اس کا اندازہ اِس واقعہ سے ہوتا ہے کہ جامعہ میں زمانہ طالب علمی میں ایک بار آپ بیمار ہوگئے۔ بہت تھوڑی سی رقم گزارہ کے لئے ملتی تھی۔ آپ کے والد صاحب آپ کو 25 روپے ماہانہ بھیجا کرتے تھے۔ یہ رقم نہ آئی تو آپ نے اُنہیں خط لکھا اور خط بھی بیرنگ ڈالا کیونکہ ٹکٹ کے پیسے بھی نہ تھے۔ لیکن خط ڈالنے کے بعد آپ کو خیال آیا کہ یہ خط نہیں لکھنا چاہئے تھا۔ قبل اس کے کہ آپ کے والد صاحب کو یہ خط ملتا، وہ منی آرڈر کے ذریعہ آپ کو رقم بھجواچکے تھے۔ تاہم جب یہ خط اُن کو ملا تو اُنہوں نے آپ کو جواباً لکھا کہ اگر تمہارا خط مجھے پہلے مل جاتا تو میں تمہیں رقم نہ بھجواتا۔ تمہیں تو قربانی کرنی ہے اور تم واقف زندگی ہو۔ اس پر آپ نے اپنے والد سے معافی مانگی اور قناعت کا یہ سبق ہمیشہ یاد رکھا۔