محترم چوہدری نور احمد باجوہ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28 مئی 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرمہ ن۔ب صاحبہ نے اپنے نانا مکرم چوہدری نور احمد باجوہ صاحب ابن حضرت چوہدری باغ دین باجوہؓ کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم چودھری نور احمد باجوہ صاحب ایک دانا اور بااخلاق انسان تھے۔ جو بھی آپ سے ملتا تھا آپ کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ آپ دس شرائط بیعت پر ہر لحاظ سے عمل کرنے والے ایک رحمدل، باعمل، باحیا انسان تھے۔ ہر رشتہ کے حقوق ادا کرنے والے تھے۔ کسی انسان کے لئے ان کے دل میں کینہ، بغض نہیں تھا۔ انہوں نے ساری زندگی کسی سے شکوہ نہ کیا اور نہ ہی کسی کو ان سے کوئی شکوہ تھا۔
دیانتدار ایسے تھے کہ آپ کے بڑے بھائی سندھ میں رہتے تھے لیکن انہوں نے اپنی ایک مربع گھوڑی پال زمین آپ کے سپرد کی ہوئی تھی۔ کسی نے شکایت کردی کہ اس زمین کا مالک اس گاؤں میں موجود نہیں ہے لہٰذا یہ مربع ضبط کر لیا جائے۔ لیکن گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ زمین آپ کے نام لگادی جائے۔ اس پر آپ نے کہا کہ یہ زمین میرے بھائی نے مجھے امانتاً دی ہوئی ہے اور اس پر اُن کا ہی حق ہے، میرا نہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے بھائی کو سندھ سے بلا کر وہ زمین اُن کے نام لگوا دی۔
آپ بہت رحمدل تھے۔ دروازہ پر کوئی فقیر آتا تو کہتے کہ اسے جلد کچھ دے دو، اس نے اگلے دروازے پر بھی جانا ہے۔
نہایت عبادت گزار تھے۔ زندگی کے آخری دن تک نماز تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔ چندے باقاعدگی سے ادا کرتے ۔ موصی تھے اور اپنے تمام بچوں کی وصیت بھی کروا دی تھی۔ آپ کی وفات پر معلوم ہوا کہ آپ نے اپنے چندہ جات کی اضافی ادائیگی کی ہوئی تھی۔ خلافت کے عاشق تھے اور بہت اہتمام کے ساتھ خطبہ جمعہ سنتے تھے۔ بہت ہی شکرگزار، متوکّل اور انتہائی خوددار انسان تھے۔ آپ کی زندگی میں پریشانیاں بھی بہت آئیں لیکن کبھی حالات کی وجہ سے مزاج میں تلخی پیدا نہ ہوئی۔