محترم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍نومبر 2002ء میں محترم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم وحید احمد جنجوعہ صاحب لکھتے ہیں کہ 1974ء میں جب محترم حافظ صاحب کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ قائم کرکے آپ کو جیل بھیج دیا گیا تو آپ کے ایک بیٹے اور ایک غیرازجماعت ڈسپنسر کو بھی اسی مقدمہ میں ملوث کرکے آپ کے ساتھ ہی جیل میں بھیجا گیا۔ آپ نے وہاں ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ یہ ابتلاء پچاس روز پر محیط تھا۔ اس دوران ڈسپنسر کو فتنہ پرداز مولویوں کی طرف سے کئی پیغام موصول ہوئے کہ اگر وہ احمدیوں سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کردے تو ایک ہی دن میں اُس کی ضمانت ہوجائے گی۔ محترم حافظ صاحب مرحوم نے بھی اُسے سمجھایا کہ تم تو احمدی بھی نہیں ہو پھر کیوں یہ سختیاں برداشت کر رہے ہو، مولویوں کی بات مان کر اس عذاب سے نجات حال کرلو۔ لیکن اُس نے جواب دیا کہ آپ نے ہر قدم پر باپ بن کر میرا ساتھ دیا ہے، اگر آج مَیں آپ کو اپنے آرام کی خاطر چھوڑ جاؤں تو ساری زندگی ضمیر کے طعنے برداشت نہ کرسکوں گا۔
جب معاندین نے محترم حافظ صاحب کی تین منزلہ کوٹھی معہ انتہائی قیمتی ساز و سامان جس میں دو کاریں بھی شامل تھیں، جلاکر خاکستر کردیا اور آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بڑی مشکل سے جان بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوئے تو قریباً ایک ہفتہ بعد جب جلی ہوئی عمارت سے دھواں نکلنا بند ہوگیا۔ ایک روز محترم ڈاکٹر صاحب، شہر کی انتظامیہ کے مشورہ کے برخلاف، وہاں پہنچے۔ چہرہ پر حسین مسکراہٹ تھی۔ ہم دو تین افراد ملبہ پر موجود تھے۔ وہی ڈسپنسر بھی وہاں تھا۔ وہ بے ساختہ آپ کے گلے لگ کر رونے لگ گیا۔ آپ نے اُس کی کمر پر تھپکی دی اور پوچھا: کیوں رو رہے ہو۔ اُس نے نقصان کا ذکر کیا تو بولے: نقصان میرا ہوا ہے یا تمہارا۔ رونا تو مجھے چاہئے لیکن مَیں تو ہنس رہا ہوں۔ پھر فرمایا: مَیں تو خوش ہوں کہ شاید میرے گناہوں کی سزا مجھے اسی دنیا میں مل گئی ہے اور اب بخشش کی امید لئے مَیں خدا تعالی ٰکے حضور پیش ہوسکوں گا۔ اور یہ سب کچھ مجھے خدا نے ہی دیا تھا، اور وہ دوبارہ عطا کرنے پر بھی قادر ہے۔ چنانچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے واقعی اُنہیں پہلے سے بھی بڑھ کر عطا کیا۔