محترم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب

محترم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍اگست 2000ء میں محترم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب کے ایک استاد اور صدرمحلہ محترم محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب رقمطراز ہیں کہ محترم ڈاکٹر صاحب کلاس میں بڑی سنجیدگی، توجہ اور وقار سے بیٹھتے تھے۔ میرے محلہ میں رہتے تھے۔ ان کے دینی شوق اور نیکی کو دیکھ کر مَیں درس دینے کا کام ان سے لیا کرتا تھا۔
ایک دفعہ مَیں سحری سے قبل محلہ کا دورہ کر رہا تھا۔ مکانات اس وقت ابھی تھوڑے تھے۔ جب مَیں ان کے مکان کے قریب پہنچا تو مجھے جنوب کی طرف رقت بھری ہچکیوں کی آواز سنائی دی جیسے کوئی آہ و زاری سے دعائیں کر رہا ہو۔ مَیں اُس آواز کی طرف چل پڑا۔ جب آگے گیا تو حمید احمد خان میری طرف آرہے تھے۔ شرمندہ تھے کہ اُن کی تنہائی میں دعائیں کرنے کا علم مجھ کو ہوگیا ۔ مجھے رشک آیا کہ کس طرح یہ جوانی میں دعاؤں کا جذبہ رکھتے ہیں۔
حمید احمد خان کے والد پاکستان بننے سے قبل اپنے علاقہ میں جاگیردار تھے لیکن لباس اور رہن سہن بڑا سادہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد انہیں ابتلا سے گزرنا پڑا لیکن ایسے وقت میں بھی اپنی وضعداری میں کوئی فرق نہ آنے دیا اور اپنی حالت کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ یہی کیفیت حمید احمد خان کی والدہ کی تھی۔ ہمارے محلہ میں یہ جوڑا مثالی تھا۔ ضعفاء اور غرباء سے بلاتکلّف میل جول رکھتے اور دینی کاموں میں خوب دلچسپی لیتے۔ آخری بات یہ ہے کہ اولاد کے لئے حسن تربیت سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہے، جس نے اپنی اولاد کو سنبھال لیا اور مؤدب بنایا اُس کے تمام بدخواہ ناکام ہوجائیں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں