محترم ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب
محترم ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب کا شمار نصرت جہاں سکیم کے تحت وقف کرنے والے ابتدائی ڈاکٹروں میں ہوتا ہے ۔ آپ سیرالیون بھجوائے جانے والے تیسرے ڈاکٹر تھے۔ روکوپر احمدیہ ہسپتال کی ابتداء آپ نے کی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اپریل 2012ء میں آپ کی بیٹی مکرمہ ر۔ن۔ظفر صاحبہ کے قلم سے شائع ہونے والے مضمون میں محترم ڈاکٹر صاحب کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔
محترم ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب کے والد محترم سردار نور احمد صاحب اُس وقت جماعت ہشتم کے طالبعلم تھے جب انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کی۔ وہ بہت نیک ، دعا گو اور تہجد گزار بزرگ تھے۔ بڑوں کا احترام اور بچوں پر بہت شفقت کرتے۔ خلافت احمدیہ سے بےانتہا محبت کرنے والے تھے۔ اُن کے اعلیٰ اخلاق کے باوجود اُن کی زندگی میں اُن کے خاندان میں کوئی اَور احمدی نہ ہوا۔ 1992ء میں اُن کی وفات ہوئی اور 1994ء میں اُن کی اہلیہ بی بی غلام فاطمہ صاحبہ نے بیعت کی۔
محترم ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ اپنی والدہ سے بے انتہا محبت تھی لیکن دین کے معاملہ میں بڑی جرأت سے معاملات کرتے۔ چنانچہ اپنی غیر احمدی والدہ پر بھی آپ نے یہ واضح کردیا تھا کہ چونکہ آپ احمدی ہیں اس لئے احمدی لڑکی سے ہی شادی کریں گے۔ 1964ء میں آپ کی شادی محترمہ سعیدہ حسن صاحبہ بنت چوہدری محمد شریف ڈار صاحب آف لائل پور سے ہوگئی جن سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ اُس وقت آپ L.S.M.F یعنی چھوٹے ڈاکٹر تھے۔ بعد میں آپ نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے 1969ء میں MBBS پاس کرلیا۔ ان تعلیمی اخراجات کے لئے آپ کی اہلیہ نے کچھ زیور بیچا اور باقی جماعت سے قرضہ لیا گیا۔ محترم ڈاکٹر صاحب کے دل میں جماعت کے اس احسان کی بڑی قدر تھی۔ اس لئے جونہی آپ کا ریزلٹ آیا آپ نے اُسی دن حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں نصرت جہاں سکیم کے تحت تین سالہ وقف کی درخواست بھجوادی۔
جماعت نے جولائی1971ء میں آپ کو مع فیملی سیرالیون بھجوادیا جہاں آپ نے روکوپر میں واقع ایک کھنڈرنما عمارت میں ایک میڈیکل بکس کے ساتھ کام کا آغاز کیا جس میں دیکھتے ہی دیکھتے خدا کے فضل سے بے انتہا برکت پڑی۔ خلافت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں غیرمعمولی شفا رکھ دی اور غیر از جماعت مریض دُور دُور سے اس احمدیہ ڈسپنسری میں آنے لگے جن میں بعض وزراء بھی شامل ہوتے۔ آپ نے روکوپر کے خستہ حال کلینک کو ایک بڑے ہسپتال میں بدل دیا۔ نئی عمارت کی تعمیر کی نہ صرف نگرانی کی بلکہ خود وقارعمل بھی کیا اور بسااوقات رات کو چوکیداری بھی کرتے۔ اندھیرے کی وجہ سے ایک رات وہاں کھودے گئے گڑھے میں آپ گر بھی گئے اور فجر کے وقت لوگوں نے آپ کی آوازیں سن کر آپ کو باہر نکالا۔ یکم مئی 1974ء کو اس نئی عمارت کا افتتاح ہوا۔ روزنامہ الفضل (صد سالہ جشن تشکر نمبر 1989ء) میں آپ کے متعلق لکھا ہے: ’’سیرالیون میں ایک احمدیہ ہسپتال روکوپر ضلع کامبیا (Kambia) میں ڈاکٹر ایس ایم حسن صاحب نے شروع فرمایا جن کے اخلاص اور نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں غیرمعمولی شفا رکھ دی کہ وہ بطور ایک فرشتہ کے مشہور ہو گئے‘‘۔
محترم ڈاکٹر صاحب نہایت دعا گو انسان تھے۔ بنی نوع انسان کا درد رکھنے والے تھے۔ افریقن قوم سے انہوں نے بہت محبت کی اور افریقن قوم نے بھی ان کی محبت کا جواب محبت سے دیا۔ اس محبت کا اظہار خطوط کے ذریعہ تب بھی جاری رہا جب آپ واپس پاکستان آگئے۔ سیرالیون میں خانہ جنگی کے بعد بعض لوگوں کی مالی امداد بھی کرتے رہے۔
دسمبر1975ء میں پاکستان واپس آنے کے بعد محترم ڈاکٹر صاحب پہلے چند ماہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھاتے رہے اور پھر مختلف مقامات پر تعینات رہے۔ آپ نے MCPSاور DAکا امتحانات بھی پاس کئے اور طویل عرصہ ملازمت کے بعدSenior Anesthesiest کی پوسٹ سے ریٹائرمنٹ لی۔ اپنی ملازمت کے دوران آپ نہایت مخلص اور ایماندار مشہور تھے۔ آپ موصی تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے پابند اور نماز جمعہ باقاعدگی سے بچوں کو ہمراہ لے جاکر دارالذکر لاہور میں ادا کیا کرتے تھے۔ خلافت احمدیہ سے بیحد محبت تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے آپ کا خاص تعلق تھا۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات دسمبر2001ء میں 63برس کی عمر میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی اور تین بیٹوں سے نوازا۔ آپ کی بیٹی کی شادی محترم مرزا ظفر احمد صاحب سے ہوئی جنہیں جاپان میں لمبا عرصہ خدمت دین کی سعادت حاصل ہوئی اور انہوں نے 28مئی 2010ء کو سانحہ لاہور میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔