محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اکتوبر2008ء میں مکرم حنیف احمد محمود صاحب بیان کرتے ہیں کہ مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب اپنے پیاروں میں مَنُّوں بھائی کے نام کے ساتھ جانے پہچانے جاتے تھے۔ آپ خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے پہلے شہید ٹھہرے۔ خاکسار سے موصوف کا تعلق گو پرانا نہیں تاہم گہرا ضرور تھا۔ ان کے نانا حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ کی سوانح حیات مصنفہ کریم احمد نعیم کو جب خاکسار نے ترتیب دیا اور نوک پلک درست کرکے شائع کروائی تو یہ تعلق مزید آگے بڑھا۔

ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر ہونے کے باوجود جماعت کی خدمت کے لئے وقت دیتے۔ اپنے ہسپتال سے رات کو تھکے ماندے جب واپس آتے تو عموماً اپنے گھر جانے کی بجائے گھر سے ملحقہ مسجد میں آکر دفتری ڈاک نکالتے، کارکنان کو ہدایات دیتے، پھر گھر جاتے۔ یہی معمول دوپہر کو بھی تھا۔ حتیٰ کہ اگر یہ علم ہوتا کہ آج ہسپتال میں مصروف دن ہے تو علی الصبح جماعتی کام سرانجام دے جاتے۔ ہر جماعت اور ہر فرد جماعت سے ذاتی تعلق تھا ہر جماعت کا دورہ فرماتے۔ اکثر اوقات فجر کی نماز پر ساٹھ ستر میل کا فاصلہ طے کرکے قریبی جماعتوں میں چلے جاتے اور احباب جماعت کا حال احوال دریافت فرماتے۔ کوئی بھی احمدی کسی کام کے لئے حاضر ہوتا تو اُسے جانتے یا نہ جانتے اس کا کام ضرور کر دیا کرتے تھے۔ آپ خود بھی اس امر کا اظہار کیا کرتے کہ خدا کی شان بھی کیا عجیب نرالی ہے کہ اگر کوئی احمدی کسی مشکل کے حل کے لئے خاکسار کے پاس آتا ہے اور مجھے اس کام کے لئے کسی افسر سے ملنا ہے تو متعلقہ افسر اس دن یا اس کے اگلے دن خود اپنے کسی کام کے لئے خاکسار سے ملنے آجاتا ہے اور میں باتوں باتوں میں احمدی دوست کی مشکل بھی بیان کر دیتا ہوں۔
آپ اپنے عمل و تلقین کے ساتھ لوگوں کو قریب لاتے۔ آپ کی شخصیت کی وجہ سے لوگ مسجد کا رخ کرتے اور نمازی بن جاتے۔ دو احمدیوں کے درمیان اگر کسی بات پر جھگڑا ہو جاتا تو اس کو وہیں پر نپٹاتے۔ آپ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے لوگ آپ کے فیصلہ کو قبول بھی کرلیتے تھے۔ احباب جماعت سے محبت ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ کی وفات پر ہر کوئی اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہا ہے۔ نماز جنازہ پر جو وفد میرپور خاص سے آیا ہوا تھا، اُن میں سے ایک نے بتایا کہ میرے والدین حال ہی میں یکے بعد دیگرے وفات پاگئے ہیں۔ اُن کی وفات کی وجہ سے افسوس تو ضرور تھا مگر ڈاکٹر صاحب کی وفات پر یوں لگ رہا ہے کہ میں آج یتیم ہوا ہوں۔ اسی طرح 80 سالہ ایک بزرگ، جو پوتوں نواسوں والا ہے، نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
احباب جماعت بھی آپ سے بے لوث محبت کرتے تھے۔ 2006ء میں خاکسار جب میرپور خاص گیا تو مٹھی اور نگرپارکر کے دورہ کے دوران جماعتوں کے لوگ سڑکوں پر اکٹھے ہوگئے کہ آج یہاں سے امیر صاحب نے گزرنا ہے۔
خلافت کے ساتھ آپ کا ادب و احترام کا رشتہ تھا۔ خلفاء کے ساتھ اگر آپ کو بے پناہ عقیدت تھی تو خلفاء کو بھی آپ کی قربانیوں کی وجہ سے پیار و انس تھا۔ اسی لئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا پیارا بھائی کہہ کر پکارا ہے۔ ہر جلسہ پر لندن تشریف لے جاتے اور جلسہ گاہ میں خیمہ لگا کر قیام فرمانے کو ترجیح دیتے۔
خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت کرنے کو اپنے لئے شرف سمجھتے تھے۔ واقفین زندگی سے بہت پیار تھا۔ دورہ جات کے دوران اگر مربی سلسلہ ساتھ ہوتے تو ان کو فرنٹ سیٹ پر بٹھاتے۔
دکھی انسانیت اور نادار مریضوں کی خدمت اپنا فرض سمجھتے تھے۔ مٹھی ہر ماہ دوسرے جمعہ کو جاتے، میڈیکل کیمپ لگاتے اور مفت مریض دیکھتے۔ کسی کا تفصیل سے معائنہ کرنا ہوتا تو اسے اپنے ہسپتال بلاتے۔ ایسے مریض سے فیس نہیں لیا کرتے تھے بلکہ آنے کا کرایہ بھی ساتھ دے آتے۔ مٹھی سے واپسی پر تھکن کے باوجود نصرت آباد میں مکرم نواب مصطفی خانصاحب کی قائم کردہ ڈسپنسری میں بھی مریضوں کو وقت دیتے۔ نگرپارکر بھی نومبائعین کے علاج معالجہ کے لئے جاتے اور جماعتی کاموں کا جائزہ لیتے۔
غریبوں کے علاج اور ان کو سہولیات بہم پہنچانے کا اس قدر احساس تھا کہ آپ نے اپنے ہسپتال میں بعض ایسے یونٹ بھی لگوائے کہ مریضوں کو دور دراز علاج کے لئے نہ جانا پڑے جیسے Dialysis Unit وغیرہ۔ غریب پروری کی صفت تو کمال تک پہنچی ہوئی تھی۔ غریب کی خدمت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ اگر کسی غریب کی وفات کا علم ہوجاتا تو اس کی تجہیز و تکفین کے لئے کچھ رقم بھجوا دیتے۔
میرپورخاص میں آپکی بہت عزت تھی۔ سرکاری آفیسرز سے خوشگوار تعلقات تھے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور منجھے ہوئے عالم کی طرح دلائل کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ سوالات کا جواب دینے کے لئے کتب کا مطالعہ کرتے رہتے۔ MTA کے دیوانے تھے اور سوال و جواب کی CDs حاصل کرکے سفر کے دوران سنتے۔ نڈر، دلیر اور جرأت مند تھے اور اللہ پر بھروسہ کا یہ عالم تھا کہ آپ کا یہ مقولہ عام تھا ’’اللہ مالک اے‘‘۔ قول و عمل میں یکسانیت تھی۔ جھوٹ قریب سے بھی نہ گزرتا۔ دو دھڑوں میں انصاف کرنے کا خدا داد ملکہ بھی حاصل تھا۔ بڑے سے بڑے آدمی کے سامنے کھری اور صاف بات کہہ دیتے خواہ اس کو ناپسند ہی لگے۔ قول سدید کے پابند تھے۔ اپنی والدہ کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ میں جب میرپورخاص گیا ہوا تھا تو کچھ کھانا میرے ساتھ کھا کر اجازت لے کر چلے گئے کہ باقی کھانا والدہ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا ہے وہ بھی انتظار کررہی ہوں گی۔ اہلیہ محترمہ کے ساتھ بھی معاشرتی تعلقات مثالی تھے۔ گھر میں ان کو سہولیات بہم پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے۔ گو آپ کی مسز مہمان نواز ہیں اور ہر وقت مہمانوں کا خیال رکھتی ہیں تاہم محترم ڈاکٹر صاحب ایسے اوقات میں جب خاص کوشش کرکے کھانا تیار کرنا ہوتا، مہمان کو ہوٹل سے کھانا کھلا دیتے تا اہلیہ کو تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں