محترم ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب – از متفرق احباب
محترم ڈاکٹر صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے آپ کی ہمشیرہ مکرمہ بشریٰ حمید صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپ جب بھی پاکستان آتے تو ربوہ کا پروگرام ضرور رکھتے جس کا مقصد صرف خلیفہ وقت سے ملاقات اور بزرگوں کی قبروں پر دعا کرنا ہوتا۔ مختصر سے وقت میں سب کو مل بھی لیتے۔… آپ ایک بڑا سا کوٹ زیب تن رکھتے جس میں ایک چھوٹے سائز کا قرآن کریم، دعاؤں کی کتاب، پاسپورٹ، کاغذات اور لاتعداد پین موجود ہوتے۔ میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ آپ اتنا وزن کیوں اٹھاتے ہیں، فالتو چیزیں بکس میں رکھ لیں۔ فرماتے یہ ضرورت کا سامان ہوتا ہے، میرے پاس وقت نہیں ہوتا کہ بار بار بکس سے نکالوں۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
محترم ڈاکٹر صاحب بشاراتِ ربانی کے تحت پیدا ہوئے اور آپ کا نام عبدالسلام بھی رؤیا میں بتایا گیا۔ چنانچہ آپ کو ساری زندگی خدا تعالیٰ نے اپنی حفاظت میں رکھا۔ آپ کے والد محترم کا بیان ہے کہ ’’ایک روز عزیز سخت بیمار ہوگیا، جان کا بھی خطرہ محسوس ہوا۔ بہت دعا کی تو خواب میں عزیز کو اچھے خاصے قد والا جوان دکھایا گیا۔ اس پر میں نے خدا تعالیٰ کی حمد کی‘‘۔… اسی طرح آپ کے بھائی مکرم چودھری عبدالحمید صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ بچپن میں بھائی جان نے غلطی سے چوہے مارنے والی زہریلی گولیاں کھالیں جو تھوڑی دیر کے بعد قے کے ذریعے خارج ہوئیں، انہیں فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا جس نے معدہ کو صاف کیا‘‘۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
مکرم چودھری عبدالحمید صاحب اپنے مضمون میں مزید بیان کرتے ہیں کہ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب شاندار تعلیمی ریکارڈ کے حامل رہے اور آپ کو دعاؤں کی قبولیت پر پورا یقین تھا۔ جب آپ کیمبرج میں زیر تعلیم تھے تو آپ نے اپنے والد محترم کو خط لکھا کہ آپ کا پریکٹیکل ٹھیک نہیں ہوا اور اگر اللہ تعالیٰ معجزانہ رنگ میں پاس نہ کرے تو آپ کو کامیابی کی امید نہیں۔… جب نتیجہ نکلا تو آپ نے اس امتحان میں بھی فرسٹ کلاس لی اور اپنے بھائی کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ یہ صرف دعاؤں کا معجزہ تھا کیونکہ سارا دن پریکٹیکل کرنے کے بعد جب میں نے نتائج جمع کئے تو علم ہوا کہ میرا طریقہ کار شروع سے ہی غلط تھا اس لئے پریشان ہوگیا اور دعا کے لئے خط لکھا، لیکن چونکہ میرے تھیوری کے پرچے خدا کے فضل سے اتنے اچھے ہوئے تھے کہ پروفیسروں نے میرے پریکٹیکل کی غلطی کو نظرانداز کرتے ہوئے مجھے پورے نمبر دیئے۔ …
۔ …٭ …٭…٭…۔
مکرم چودھری عبدالحمید صاحب کا بیان ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب ایک شفیق بھائی تھے۔ جب وہ Ph.D. کرکے وطن واپس آئے تو کچھ بڑے بھائی ہونے کے ناطے اور کچھ ان کی قابلیت سے مرعوب ہوکر میں ان سے نظر ملاکر بات نہیں کرسکتا تھا۔ انہیں میری اس کیفیت کا احساس ہوگیا۔ ایک دن انہوں نے مجھے میز پر سامنے بٹھالیا اور کہا ’’میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو‘‘ لیکن میں ایسا نہ کرسکا۔ انہوں نے دوبارہ کہا لیکن میں پھر بھی ایسا نہ کرسکا۔ پھر انہوں نے گرجدار آواز میں کہا اس پر میں نے ہمت کرکے بمشکل دو یا تین سیکنڈ کے لئے دیکھا جس کے بعد میرا احساس کمتری جاتا رہا اور میں حد ادب میں رہتے ہوئے ان سے کھل کر باتیں کر لیتا تھا۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے آپ کی اہلیہ محترمہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپ کی ساری زندگی بے حد مصروف گزری لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا، نمازوں کی ادائیگی، قرآن کی تلاوت۔ سفر شروع کرتے ہی جیب سے چھوٹی سی حمائل نکال لیا کرتے تھے اور بعض اوقات دو دو گھنٹے کا پورا سفر قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف رہتے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ ثانی محترمہ لوئس جانسن سلام صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جب ڈاکٹر صاحب صحتمند تھے تو دنیاوی انعامات کو وقار کے ساتھ قبول کیا، دکھاوے کو کبھی پسند نہیں کیا اور جب آپ کو علم ہوا کہ آپ ایک بظاہر لاعلاج بیماری میں مبتلا ہیں تو بھی اس صورتحال کو سکون اور وقار سے قبول کیا اور کوئی شکوہ زبان پر نہیں لائے جو ایک غیرمعمولی بات تھی۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر عمر سلام صاحب بھی اپنے والد کے انکسار اور صبر کی خوبیوں کو یوں بیان کرتے ہیں کہ آپ نے شدید بیماری کی حالت میں بھی کبھی شکوہ نہیں کیا، غصہ نہیں دکھایا اور کبھی بے قراری کا اظہار نہیں کیا۔ بیماری کے اثرات کئی سال پہلے سے شروع ہوچکے تھے لیکن آپ نے اس حالت میں بھی اپنی شخصیت کو نہیں بدلا اور جب تک طاقت رہی ہمیشہ کی طرح اپنا کام صبح تین بجے شروع کرنا چاہتے تھے…
۔ …٭ …٭…٭…۔